کراچی(این این آئی )بیورو آف امیگریشن اینڈ اورسیز امپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستانی افرادی قوت کی برآمدات میں کمی آئی ہے۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال 2016 کے مقابلے میں رواں سال 2017 کے پہلے 6 ماہ میں سعودی عرب کیلئے برآمد کی جانے والی افرادی قوت صرف 17 فیصد رہی، جیسا کہ رواں سال جنوری سے جون کے دوران 77 ہزار 6 سو پاکستانی سعودی عرب گئے تاہم
گذشتہ سال بھر میں یہ تعداد 4 لاکھ 62 ہزار 5 سو 98 تھی۔خیال رہے کہ افرادی قوت کی برآمدات میں انتہائی کمی ترسیل زر پر اثر انداز ہوسکتی ہے جو مالی سال 17-2016 کے دوران گذشتہ 17 سال میں سب سے کم رہی اور سعودی عرب سے ترسیل زر گذشتہ مالی سال میں کم ہوکر 8.3 فیصد ہوگئی تھی۔یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ خاص طور پر سعودی عرب جانے والے مزدروں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی جو ترسیل زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، پاکستانی ورکرز ہر سال سعودی عرب سے 5.4 ارب ڈالر کی رقم وطن بھیجتے ہیں جو 17-2016 میں ملک کو وصول ہونے والے مجموعی ترسیل زر کا 28 فیصد سے زائد تھی۔واضح رہے کہ عالمی دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث عرب ممالک میں ملازمتوں کے مواقعے میں کمی آئی ہے، پاکستان اپنے بجٹ خصارے کو کم کرنے کے لیے ترسیل زر پر انحصار کرتا ہے جو گذشتہ مالی سال میں 12.1 ارب ڈالر تھا۔یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ سے آنے والا ترسیل زر پاکستان پر ہر سال وصول ہونے والے ترسیل زر کا 63 فیصد ہوتا ہے۔یہ ترسیل زر پاکستان کو اس کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں تاکہ آئندہ 3 ماہ کیلئے درآمدات کو یقینی بنایا جاسکے۔جیسا کہ تیل کی قیمتیں تاحال برقرار ہیں جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے لیے پاکستانی ورکرز کی برآمدات میں اضافہ
مشکل معلوم ہوتا ہے، یہ بات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے دوران گذشتہ 4 سال میں افرادی قوت کی برآمدات میں مستقل کمی واقعہ ہوئی۔دوسری جانب بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی ورکرز ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کے بعد وطن واپس لوٹ رہے ہیں جس کی وجہ معاشی دباؤ ہے جو کو کم کرنے کے لیے عرب ریاستیں بیشتر ملازمتیں مقامی عربوں کو دینا چاہتی ہیں۔وطن آنے والے
ورکرز کے مکمل سرکاری اعداد وشمار موجود نہیں ہیں لیکن ذرائع نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ کچھ سالوں میںنکالے جانے 2 لاکھ 60 ہزار پاکستانی واپس وطن لوٹے ہیں۔بیورو کے مطابق رواں سال جنوری سے جون کے دوران 3 ہزار 2 سو 43 پاکستانی ورکرز ملائشیا گئے جبکہ گذشتہ سال بھر میں یہ تعداد 10 ہزار 6 سو 25 تھی۔ادھر غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر مسلسل دباؤ کے باوجود حکومت نے تاحال افرادی قوت کی برآمدات میں اضافے کے لیے حکمت عملی ترتیب نہیں دی۔