اسلام آباد (آئی این پی ) بیجنگ میں ہونیوالی حالیہ ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس کی کامیابی نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے(سی پیک ) پر کام کی رفتار کے بارے میں چین کے صدر شی جن پھنگ اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو زیادہ پر اعتماد بنادیا ہے، سی پیک ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا پائلٹ پراجیکٹ ہے ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کے صدر شی جن پھنگ نے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ تین سال پہلے تجویز کیا تھا
جس کے بعد چین کے صدر اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے سی پیک پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ۔میاں محمد نواز شریف نے 2013ء میں تیسری بار اقتدار میں آنے کے فوراً بعد صدر شی جن پھنگ کے ان منصوبوں میں شامل ہو گئے اور چینی حکومت اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر 71ارب ڈالر کے سی پیک پر عملدرآمد شروع کر دیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سی پیک سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا ، اس سے روزگار کے اضافی مواقع پیداہوں گے کیونکہ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے گا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سی پیک میں چین نے دنیا کی سب سے زیادہ فنڈنگ کی ہے، اگر پاکستان اپنے بنیادی شعبوں میں اس بڑی سرمایہ کاری کو بہتر طورپر استعمال کر سکا تو یہ پاکستان کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گی ۔ پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی اور سی پیک منصوبوں کے انچارج احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ہماری کل قومی پیداوار میں سی پیک کی وجہ سے 1.5فیصد کا اضافہ ہو گا جس سے مزید 15لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع حاصل ہو ں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کے پہلے دو سال کے دوران 1410000افراد کو براہ راست روزگار حاصل ہوا ہے جبکہ اسے پاکستان میں 29لاکھ 10ہزار روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں ، سی پیک پر سرمایہ کاری کا اندازہ 50ارب ڈالر سے زیادہ ہے ،
اتنی بڑی سرمایہ کاری سے بے شمار معاشی سرگرمیاں اور روزگار کے مواقع پیداہونگے جبکہ 2022ء تک پاکستان کو 5ارب ڈالر کے قرضے اور دیگر ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔حکومت کے چیف اکانومسٹ ندیم جاوید کا کہنا ہے کہ چین کو سی پیک کے قرضوں کی ادائیگی کے بعد سی پیک کی ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت سے اضافی 1.75ارب سے 2ارب سالانہ کی وصولیاں ہوں گی ، چین نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے توانائی ، ٹرانسپورٹ اوردیگر ام شعبوں میں 57ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا تھا تاہم بعد میں اس میں 71.5ارب ڈالر تک اضافہ کر دیا گیا ،
سی پیک کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کی اقتصادی ترقی میں 2017ء تک 5.2فیصد کا اضافہ ہو گا جبکہ اس کے ذریعے سے برآمدات میں اضافہ ہو گا ، بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کے بعد اضافی بجلی ملے گی جس سے بجلی سستی ہو گی اور اس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا ۔صدر شی نے نئی شاہراہ ریشم سے وابستہ ممالک میں 100ارب یوآن کے ایک اور فنڈ کا بھی وعدہ کیا ہے جبکہ 380ارب یوآن کے قرضے 60ارب یوآن کی امداد بھی ان بین الاقوامی اداروں اورممالک کو فراہم کی جائے گی جو نئے تجارتی روٹ سے منسلک ہو ں گے ۔