تہران(این این آئی)ایرانی بحریہ نے دفاعی اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز کے قریب سالانہ فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران کی یہ پہلی بڑی فوجی مشقیں ہیں۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اِن فوجی مشقوں میں ملکی بحریہ کے جہاز، آبدوزیں اور ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں، ایرانی بحریہ کے
سربراہ ایڈمرل حبیب اللہ سیّاری نے بتایاکہ نیوی کی مشقوں کے دوران آبنائے ہرمز میں بحرِ ہند کے قریب اور عمان کے سمندر میں 2 ملین مربع کلو میٹر کے رقبے کا احاطہ کیا جائے گا۔ یہ رقبہ 772،000 مربع میل کے برابر ہے۔ اِن فوجی مشقوں میں ملکی بحریہ کے جہاز، آبدوزیں اور ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں۔یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ان مشقوں میں ایرانی پیرا ملٹری فورس پاسدارانِ انقلاب کے دستے شرکت نہیں کر رہے۔ پاسدارانِ انقلاب پر امریکی بحریہ کی جانب سے اکثر اْس کے جہازوں کو پریشان کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بحرین میں تعینات امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے سے جو خلیج اور قریبی پانیوں میں بحری راستوں کی حفاظت پر مامور ہے، ایرانی فوجی مشقوں پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی تاہم اْس کی جانب سے تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔اس سے قبل ایرانی فوج نئی امریکی پابندیوں کے ایک روز بعد رواں ماہ چار فروری کو اپنے میزائل اور ریڈار سسٹم ٹیسٹ کر نے کے لیے مشقیں کر چکی ہے۔
ایرانی فوج کی چار فروری کو ہونے والی مشقوں سے محض ایک روز قبل جمعہ تین فروری کے دن امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں ایک بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کی وجہ سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اِن پابندیوں کو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے لیے ’نوٹس‘ قرار دیا گیا تھا۔خیال رہے کہ سمندر کے ذریعے تیل کی تقریبا
ایک تہائی تجارت آبنائے ہرمز کے راستے ہوتی ہے اور ماضی میں ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے تصادم کا سبب بھی یہی رہا ہے۔ یومیہ لاکھوں بیرل تیل یمن اور ایران کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ آبنائے ہرمز اور باب المندب کی آبی گزرگاہوں کے ذریعے یورپ، امریکا اور ایشیا منتقل کیا جاتا ہے۔