اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار بروس ریڈل کی ایک نئی کتاب کے مطابق پاکستان کے صدر ایوب خان نے 1962 میں بھارت چین جنگ کے دوران ہندوستان پر حملہ نہ کرنے کے بدلے میں امریکہ سے کشمیر کا مطالبہ کیا تھا۔
تیس برس تک سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والے اور چار امریکی صدور کے مشیر رہنے والے ریڈل نے اپنی کتاب ’JFK’s Forgotten Crisis‘ میں لکھا ہے کہ 1962 ء میں پاکستان پوری طرح سے حملہ کرنے کی حالت میں تھا اور بھارتی فوج چین اور پاکستان کے اس دو طرفہ حملے سے پارہ پارہ ہوجاتی، ایوب خان کی جانب سے بھارت کو یہ پیغام گیا تھا کہ ایک دن میں کشمیر ہمارے حوالے کردو ورنہ بھارت پر حملہ کرکے اسے تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ریڈل کے مطابق اس وقت بھارت کی حالت انتہائی خراب ہو گئی تھی اور شدید خوف و ہراس کا شکار ہو گیا تھا اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اس ممکنہ پاکستانی حملے کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ان کا کہنا ہے کہ کینیڈی اور برطانیہ کے وزیر اعظم ہیرلڈ میکملن نے پاکستان پر یہ کہہ کر سخت دباؤ ڈالا کہ اگر وہ حملہ کرتا ہے تو اسے بھی چین کی طرح ہی حملہ آور ملک قرار دیا جائے گا۔پاکستان کا موقف تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان جنگ سرحد کی جنگ ہے اور اسے سرد جنگ اور کمیونزم سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن امریکہ اسے ایک کمیونسٹ طاقت کی طرف سے ایک جمہوری ملک پر حملے کی طرح دیکھ رہا تھا۔ان دنوں بھارت میں امریکہ کے سفیر جان گیلبریتھ کے مطابق صدر ایوب خان امریکی مشورے کے بالکل خلاف تھے مگر جب ان سے کہا گیا کہ صدر کینیڈی ایک خط لکھ کر ان سے یہ گذارش کریں گے تو وہ سننے کو تو تیار ہوئے مگر ساتھ ہی انھوں نے یہ شرط رکھی کہ ’اس کے بدلے میں امریکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا وعدہ کرے۔‘گیلبریتھ کی ڈائری کے حوالے سے ریڈل نے لکھا ہے:
’دیکھا جائے تو ایوب خان یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ اور پاکستان ایک ساتھ مل کر بھارت کو مجبور کریں کہ وہ کشمیر ان کے حوالے کر دے اسی طرح جیسے چین بھارت کی زمین پر قبضہ کر رہا تھا۔ یہ ایک طرح سے پاکستانی بلیک میلنگ تھی۔‘ غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگ ایک ایسے وقت پر ہو رہی تھی جب امریکی صدر کینیڈی روس کے خلاف کیوبا میزائل بحران سے نبرد آزما تھے اور اس کے مقابلے میں بھارت اور چین کی اس کشیدگی پر واشنگٹن میں بہت کم توجہ دی جا رہی تھی۔ریڈل کے مطابق اس معاملے میں کینیڈی کے معتمد مشیر سفیر گیلبریتھ ہی تھے جو نہرو کے اتنے قریب سمجھے جاتے تھے کہ بہت سے لوگ انھیں نہرو کا ہی مشیر کہنے لگے تھے۔کتاب کے مطابق ایوب خان نے کینیڈی سے کوئی وعدہ نہیں کیا اور ساتھ ہی اس بات پر ناراضی بھی ظاہر کی کہ امریکہ نے پاکستان کو بغیر بتائے ہی بھارت کو چین کے خلاف ہتھیار فراہم کیے۔ایوب خان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ہوئے اس سمجھوتے کو توڑا ہے جس میں اس نے
1961 میں کہا تھا کہ چینی حملے کے باوجود امریکہ بھارت کو پاکستان کی منظوری کے بغیر فوجی امداد نہیں دے گا۔ریڈل نے لکھا ہے کہ سنہ 1962 میں پاکستان کے حملہ نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ رہی کہ امریکہ اور برطانیہ کو ناراض کرکے پاکستان بالکل تنہا پڑ جاتا اور چین پر اس وقت کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنگ کے بعد وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے۔لیکن جنگ کے بعد جب ایوب خان نے اس کا مطالبہ کیا تو امریکی سفیر گیلبریتھ نے واشنگٹن کو جواب دیا کہ چین سے شکست کے بعد نہرو بالکل ٹوٹ چکے ہیں اور مقامی سیاست میں ان کی ساکھ اس وقت ایسی نہیں ہے کہ وہ کشمیر جیسے معاملے پر کوئی اہم فیصلہ کر سکیں۔ریڈل نے لکھا ہے کہ بھارت کے خلاف 1965 کی جنگ ایوب خان نے اپنے بل پر شروع کی تھی لیکن اس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ وہ امریکی ہتھیار بنے
جو امریکہ نے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دیے تھے۔کتاب کی رونمائی کے وقت ایک سوال کے جواب میں ریڈل کا کہنا تھا کہ 1962 کے بعد ایک طرح سے پاکستان میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ پاکستان جس طرح کی شراکت چاہتا ہے اس کے لیے چین امریکہ سے کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔’لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں شاید یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ 1965، 1971 اور 1999 کی کسی بھی جنگ میں چین پاکستان کا ساتھ دینے نہیں آیا۔ چین اپنے ملک کے فائدے کو ترجیح دیتا ہے۔‘
1965اس جنگ میں نہرو نے کینیڈی کو خط لکھ کر چین کے خلاف مدد مانگی تھی اور ریڈل کے مطابق کینیڈی کے لیے وہ ایک بڑے فیصلے کی گھڑی تھی اور شاید امریکہ اس جنگ میں کود بھی پڑتا۔لیکن اس سے پہلے کہ کینیڈی کوئی فیصلہ کرتے چین نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ ریڈل کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اب تک کوئی معلومات سامنے نہیں آئے ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی کیونکہ چین نے اس بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی ہے۔