برلن (مانیٹرنگ ڈیسک )جرمن دفتر خارجہ کے ایک ایسے اہلکار کے خلاف مقدمے کا آغاز کر دیا گیا ہے، جس پر الزام ہے کہ وہ جرمنی میں رہنے والے سکھوں کی معلومات بھارت کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کر رہا تھا۔ اس کیس نے جرمن حکام کو بھی حیران کر دیا ہے۔ایک جرمن خبررساں ادارے کے مطابق جرمنی کے وفاقی وکلائے استغاثہ کا کارلزروہے کی عدالت میں کہنا ہے، ’’ہمیں یہ قوی شک ہے کہ ملزم کی خفیہ سرگرمیاں اپنے شعبے میں رازداری کے قانون کے منافی ہیں اور ملزم نے مجموعی طور پر پنتالیس مرتبہ ایسا کیا ہے۔‘‘۔پکڑے جانے والے جاسوس جوکہ دفترخارجہ میں کام کررہاتھااس کی عمر58برس ہے وہ بھارت چھوڑکرجرمنی آیااوریہاں پرجرمن دفترخارجہ میں ملازمت کرکے بھارت کی خفیہ ایجنسی کو ان افراد کی معلومات فراہم کیں، جو بھارت چھوڑ کر جرمنی میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔وفاقی دفتر استغاثہ کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی نے جرمن اہلکار کو یہ احکامات دے رکھے تھے کہ وہ ان بھارتیوں کی معلومات ان کو فراہم کرے، جن کا تعلق حکومتی اپوزیشن سے ہے اور ان سکھ مذہبی گروپوں کی بھی، جو بھارت کے خلاف بات کرتے ہیں۔اس شخص کو فروری دوہزارسولہ میں اسے گرفتارکیاگیااورتحقیقات شروع کی گئیں بتایا گیا ہے کہ ملزم کی رسائی جرمنی کے معلوماتی پروگرام تک تھی اور اسی کا اس نے غلط استعمال بھی کیا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق اٹھاون سالہ ملزم دفتر خارجہ کے ایک مرکزی دفتر میں کام کرتا تھا اور رواں برس فروری میں ہی اسے حراست میں لیتے ہوئے اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ملزم کے خلاف یہ مقدمہ ریاستی سکیورٹی ڈویژن کی سفارش پر قائم کیا گیا ہے۔ ابھی تک ملزم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ملزم نے یہ معلومات فراہم کرنے کے عوض بھارت کی خفیہ ایجنسی سے کیا مراعات حاصل کی ہیں۔عالمی ماہرین کے مطابق ایسے وقت میں ایک بھارت جاسوس کی جرمنی میں گرفتاری کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں ہے جبکہ بھارت کوپہلے ہی مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم کی وجہ سے دنیامیںرسوائی کاسامناہے اوراس وقت اسکے اپنے ہمسایہ ملک پاکستان سے بھی تعلقات کشیدگی کی انتہاپرہیں اوراس سے بھارتی سفارتکاری کوبھی شدیدنقصان پہنچے گا۔