لندن/واشنگٹن (این این آئی)برطانوی وزیر دفاع مائیکل فیلن نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے کے اعلان پر کہا ہے کہ ’نتائج ان کے خلاف آنے کے بعد وزیر اعظم کا استعفیٰ ایک باوقار فیصلہ ہے۔ہم نیٹوکا حصہ رہیں گے اورمغرب کو سیکورٹی فراہم کرتے رہیں گے جبکہ داعش کے خلاف دنیا بھر میں جنگ بھی جاری رہے گی،ملک کو اب نئی کابینہ کی توقع رکھنی چاہیے۔ہمیں اب سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی اور بتانا ہوگا کہ ہم تجارتی شرائط پر بات کر سکتے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد ردعمل میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے کے بڑے نتائج مرتب ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ یہ نتیجہ ہمارے ملک، یورپ، اور دنیا کے لیے بہت اداس کن ہے۔یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ہم اپنا اتحاد 27 ممالک تک برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، میں تجویز کروں گا کہ ہم اپنے اتحاد کے لیے بڑے پیمانے پر صلاح و مشورے کا آغاز کریں۔برطانوی دارالعوام کے رہنما اور یورپی یونین سے اخراج کی مہم کے رہنما کرس گریلنگ کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو 2020 میں عام انتخابات سے قبل یورپی یونین کو خیرباد کہہ دینا چاہیے،برطانوی ہوم آفس کے وزیر لارڈ طارق احمد نے کہاکہ ڈیوڈ کیمرون کے استعفی سے انہیں ذاتی طور پر دکھ ہوا ہے کیونکہ کیمرون نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک قابل بھروسہ سیاستدان ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو معاشی بحران سے نکال کر عالمی سطح پر ایک بار پھر ایک مضبوط معیشت کے طور پر ابھارنے کا کریڈٹ ڈیوڈ کیمرون کو جاتا ہے۔لارڈ طارق احمد کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کے نتائج سے ظاہر ہے کہ مقابلہ کافی سخت تھا اور اس سے برطانیہ میں ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ریفرنڈم صرف یورپی یونین پر نہیں تھا بلکہ نتائج کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو لوگوں نے عدم برابری اور امیگریشن کے مسئلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئیٹ میں کہاکہ یہ زبردست بات ہے کہ برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دے کر اپنا ملک واپس حاصل کر لیا ہے۔لندن کے میئر صادق خان نے برطانوی عوام اور عالمی سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ انھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں اب بھی یقین کرتا ہوں کہ اگر ہمارا ملک یورپی یونین کا حصہ رہتا تو بہتر ہوتا لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لندن دنیا کا کامیاب ترین شہر ہی رہے گا۔انھوں نے عوام سے یکجہتی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ لندن میں دس لاکھ سے زائد یورپی افراد رہتے ہیں۔ ان سب کو خوش آمدید۔یوکرین کے وزیراعظم ولادومیر گروسمین نے کہا کہ آج کا دن متحدہ یورپ کے لیے اچھا دن نہیں ہے۔ولادومیر گروسمین نے مزید کہا کہ بہر حال میرے خیال میں یورپی ممالک کے اتحاد کو برقرار رکھا جائے گا، کیونکہ یہ سب کے لیے جمہوری اقدار میں سب سے بنیادی ہے۔ہم یوکرینی یورپی جمہوری اقدار کے پابند رہیں گے۔