زیورخ(نیوز ڈیسک)آج سوئٹزر لینڈ میں لوگ اس بات کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں کہ غیر ملکیوں کو معمولی جرم کرنے پر بھی ملک سے خود بخود نکالنے پر مجبور کیا جائے یا نہیں۔یہ تجویز ملک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت سوئز پیپلز پارٹی نے پیش کی ہے۔اس مسئلے پر ووٹ ایک ایسے وقت پر ڈالے جارہے ہیں جب دوسرے ممالک سے آکر بسنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے سے ملک میں نئے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔پچاس لاکھ سے زیادہ افراد اس میں ووٹ ڈالنے کے مجاز ہیں لیکن باہر سے آکر پناہ لینے والے تقریباً 20 لاکھ ان لوگوں کو اس ووٹنگ میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو سوئٹزر لینڈ میں آکر بس چکے ہیں۔اگر ’انفورسمنٹ انیشیٹیو‘ نامی اس تجویز کو منظور کر لیا گیا توسنہ 2010 میں اپنائے گئے ان اقدامات کو مزید تقویت ملے گی جس کے تحت قتل یا جنسی تشدد کے قصوروار پائے جانے والے بیرونی ممالک کے لوگوں کو واپس بھیجھنے کی بات کہی گئی تھی۔مخالفین کہتے ہیں کہ اس قانون سے ملک میں انصاف کے دو معیار قائم ہو جائیں گے اور اسے انہیں نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا جو سوئٹزر لینڈ میں قانونی طور پر مستقل آباد ہو چکے ہیں سوئز پیپلز پارٹی نے جو نئی قرارداد پیش کی ہے اس میں اگر کوئی بھی بیرونی شخص دس برس کے اندار تیز کار چلانے یا پولیس سے بحث کرنے جیسی دو چ?زوں کی خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا گیا تو، بغیر کسی اپیل کے حق کے، اسے خود بخود واپس جانا ہوگا۔اس قرارداد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک کے افراد کی جیلوں میں تعداد بہت زیادہ ہے اور اس سے ملک مزید محفوظ ہو جائیگا۔تاہم مخالفین کا کہنا ہے کہ اس قانون سے ملک میں انصاف کے دو معیار قائم ہو جائیں گے اور اسے انھیں نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائیگا جو سوئٹزر لینڈ میں قانونی طور پر مستقل آباد ہو چکے ہیں۔پولنگ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مقابلہ کافی سخت ہے۔جینیوا میں بی بی سی کے نامہ نگار اموجین فولکس کا کہنا ہے کہ اگر سوئٹزر لینڈ میں اس طرح کے قانون کو منظور کر لیا جاتا ہے تو باہر سے آکر بسنے والے لوگوں سے متعلق یورپ کا یہ سب سے سخت قانون ہوگا۔