نئی دہلی(نیوز ڈیسک)دہلی کی جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی کی طلباءتنظیم کے صدر کنہیا کمار کی غداری کے الزامات کے تحت گرفتاری کے معاملے پر بھارتی میڈیا دو گروہوںمیں بٹ گیا۔رواں ماہ ایک طالب علم کنہیا کمار کی غداری کے الزامات کے بعد گرفتاری پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی رائے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ یہ بحث اس خیال کے گرد گھوم رہی ہے کہ آیا بھارتیہ جنتا پارٹی برطانوی دور کے قانون کا استعمال ایسے عناصر کے خلاف کررہی ہے جس سے اسے اختلاف ہے۔کنہیا کمار پر الزام ہے کہ انھوں نے کشمیری رہنما افضل گورو کی پھانسی کی برسی کے موقع پر ایک ریلی کا انعقاد کیا تھا اور اس موقع پر ‘بھارت مخالف نعرے لگائے تھےتاہم کمار نے ان الزامات کی تردید کردی تھی۔اس بحث نے دو مختلف قسم کے گروہوں کو جنم دیا ہے جس کی جھلک ہمیں بھارتی میڈیا پر نظر آتی ہے جہاں ‘قومی مفاد کا مقابلہ آزادی رائے سے ہے۔ حکمراں جماعت کے موقف کی تائید کرتا نظر آرہاہے جس نے اس تنازعے کو ‘بھارت پرحملے کی طرح پیش کیا ہے۔ا ٹائمز آف انڈیا نے قومی مفاد کی مخالف سرگرمیوں کو آزادی رائے کے روپ میں چھپایا نہیں جاسکتا۔