سعودی عرب (نیوز ڈیسک)چند روز قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ایک کالم شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بہت سے حلقوں نے کالم میں استعمال کی گئی زبان کو “سفارتی موزونیت کے دائرے سے باہر” قرار دیا۔ادھر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ الشیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے ±اس لٹریچر پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے جس کا سہارا لیتے ہوئے ان کے ایرانی ہم منصب نے سعودی عرب کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اماراتی وزیر خارجہ نے کالم پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ٹوئیٹ میں تضحیک کے طور پر کہا ہے کہ ” نیویارک ٹائمز میں ایرانی وزیر خارجہ کا کالم پڑھنے کے بعد میں سمجھا کہ کالم نگار کسی اسکینڈی نیویائی (Scandinavian) ملک کے وزیر خارجہ ہیں”۔الشیخ عبداللہ بن زاید کے ٹوئیٹ نے ایرانی حکومت کے ہم نواو¿ں میں اشتعال کی لہر دوڑادی ہے، ساتھ ہی فارسی زبان بولنے والوں کے زیراستعمال سوشل ویب سائٹوں پر بھی گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے۔ صارفین اس ٹوئیٹ کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ تاہم اکثریت نے براہ راست یا بالواسطہ صورت میں اماراتی وزیر خارجہ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے ایرانی ہم منصب پر ان کے طنز کو برموقع شمار کیا ہے۔واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل “نیویارک ٹائمز” میں شائع ہونے والے کالم میں جواد ظریف نے سعودی عرب کو 11 ستمبر کے واقعات اور خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ “القاعدہ” نے کسی بھی دوسرے ملک سے قبل خود سعودی عرب کو نشانہ بنایا اور حال ہی میں “داعش” بھی اس سے جڑ گئی ہے۔ ساتھ ہی وہ اس بات سے بھی لاعلم بن گئے کہ ایران ان ملکوں میں سے ہے جن پر دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کا الزام ہے۔ ان میں شام، یمن، لبنان اور عراق میں عراقی، لبنانی، یمنی، افغانی اور پاکستانی ملیشیاو¿ں کی معاونت اہم ترین ہے۔مغربی دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے ظریف نے فرقہ واریت کو سعودی عرب کی صفت قرار دیا جب کہ مشرق وسطیٰ میں شیعہ ملیشیاو¿ں کی سپورٹ کے سبب ایران پر خود فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں اس کے قونصل خانے کو حکومتی نواز عناصر کی جانب سے حملوں کا نشانہ بنایا گیا،،، ایرانی وزیر خارجہ نے مملکت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پالیسی کو تبدیل کرے اور خبردار کیا کہ “یک طرفہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے”۔ایرانی وزیر خارجہ نے اپنا کالم ایسے وقت میں شائع کرایا جب سعودی عرب میں دہشت گردی کے الزام میں 47 افراد کو سزائے موت دیے جانے کے بعد مملکت اور ایران کے درمیان تنازعہ اپنی حدوں کو چھو رہا تھا۔ سزائے موت پانے والوں میں چار ” شیعہ” اور باقی تمام “سنی” افراد تھے۔