واشنگٹن (نیوزڈیسک) امریکی ایوان نمائندگان میں بعض ڈیموکریٹس اور ریپبلکن ارکان نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا ہےکہ پاکستان کے قبائلی علاقے اب بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں ، اسلام آباد کی حکومت دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی حمایتی ہے ، پاکستان اسلامی انتہا پسندوں کیخلاف کارروائی میںناکام رہا ، پاکستان کے دہشت گردوں سے رابطے مکمل ختم ہونے تک پاکستان اور امریکا کےدرمیان حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم نہیں ہوسکتی ، پاکستان کو اب تک 30؍ ارب ڈالر (تقریباً 30؍ کھرب پاکستانی روپے) دیئے جاچکے اور اس سالانہ 2؍ ارب ڈالر کی امداد دی جاتی ہے جسے بند کیا جائے ، پاکستان میں مدارس شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں جنہیں بند کیا جائے ، تقریباً 300فوری بند جبکہ باقی کی رجسٹریشن ہونی چاہئے، پاکستان اپنے بجٹ کا پانچواں حصہ فوج جبکہ تعلیم پر صرف ڈھائی فیصد خرچ کرتاہے ۔ تاہم پاکستان اور افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے رچرڈ اولسن نے امور خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں ایوان نمائندگان کے ارکان کو یقین دلایا کہ تحفظات اسلام آباد تک پہنچاؤں گا ، پاکستان نے علاقائی امن و استحکام کیلئے بہتر اقدامات کئے ، ہمارا یقین ہے کہ پاکستان کی بہتر معاونت اور امداد ہمارے مفاد میں کیونکہ پاکستانی حکومت انسداد دہشت گردی کے اقدامات کررہی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق امریکی کی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں ’’پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا مستقبل‘‘ کے حوالے سے انسداد دہشت گردی میں پاکستان کے تعاون، اس کی تعلیمی اصلاحات کے لیے کوششیں اور اسے دی جانے والی امریکی امداد کا جائزہ لیا گیا،دوران سماعت امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قانون سازوں نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں پر یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ملک اب بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ اور مذہبی انتہا پسندی کا ذریعہ ہے جس پر پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے کہا کہ وہ یہ تحفظات پہنچا دیں گے لیکن ان کے بقول اوباما انتظامیہ کا ماننا ہے کہ پاکستان کو معاونت کی فراہمی جاری رکھنا امریکا کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ یہ ملک انسداد دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کر رہا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین ریپبلکن رکن ایڈ روئس نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ پاکستان سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنا والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بننے کی ڈگر پر ہے اور اس کے جھوٹے جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل زیادہ تشویش کے باعث ہیں۔ان کے بقول یہ ملک اپنے مجموعی بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے لیے مختص کرتاہے جب کہ تعلیم کا بجٹ ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے ، پاکستان نے مشکل سے ہی کچھ کام کئے ہیں ، پاکستانی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن پاکستان دہشت گردوں کی جنت بنا رہا اور اس کی سیکورٹی ایجنسیز ’اچھے‘ اسلامی دہشت گردوں کی حمایت کرتی رہی ، یہ ’اچھے‘ گروپس افغانستان میں عدم استحکام کا باعث اور بھارت کیلئے خطرہ ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے سماعت میں اوباما انتظامیہ کا نقطہ نظر پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اس کے جوہری ہتھیاروں اور دیگر سلامتی کے معاملات پر کھل کے بات چیت کرتا رہا ہے اور ان کے بقول اوباما انتظامیہ پاکستان کے ساتھ ایسا جوہری معاہدہ کرنے پر بات چیت نہیں کر رہا جیسا کہ اس کا بھارت کے ساتھ ہے۔ کمیٹی کے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن ارکان نے امریکا کی طرف سے ستمبر 2001 کے بعد سے پاکستان کو دی گئی 30 ارب ڈالر کی اقتصادی و فوجی امداد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اسلام آباد کی حکومت اب بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی حمایت میں کر رہی ہے۔ متعدد قانون سازوں نے اسلام آباد پر’’دو طرف کردار ادا‘‘ کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ڈیموکریٹک نمائندے بریڈ شرمین نے اولسن سے کہا کہ وہ پاکستانی حکام کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ پاکستان کو ایک سچے شراکت دار کے طور پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ان کے بقول کانگریس میں بعض لوگ اس ملک کے لیے تمام امریکی امداد کو ختم کرنے کے لیے زور دے سکتے ہیں۔نمائندہ خصوصی اولسن نے کہا کہ وہ یہ تحفظات پہنچا دیں گے لیکن اوباما انتظامیہ کا ماننا ہے کہ پاکستان کو معاونت کی فراہمی جاری رکھنا امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ یہ ملک انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کر رہا ہے۔ڈیموکریٹ رکن ایلیوٹ اینجل کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خود دہشت گرد گروپوں سے اپنے ہاں بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور 2003 سے اس کے 50 ہزار سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں۔ ایڈروئس نے کہا کہ یہ جان کر حیرت نہیں ہوتی کہ تاشفین ملک، جس نے اپنے شوہرکے ساتھ مل کر رواں ماہ کیلیفورنیا کے علاقے سان برنارڈینو میں فائرنگ کر کے 14؍ افراد کو ہلاک کیا تھا، پاکستان میں ایسے تعلیمی ادارے میں پڑھتی رہی تھی جو کہ عدم برداشت کا پیغام پھیلاتا ہے۔ پاکستان اب بھی نفرت انگیزی کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھے ہوئے ہے، ہزاروں دیوبندی مدرسے خلیجی ریاست کی مالی معاونت سے عدم برداشت، نفرت انگیز بیان کی تعلیم دے رہے ہیں جو دہشت گردی کے لیے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ میں نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے تین بار اسلام آباد کا دورہ کیا۔ پاکستان کو ان درسگاہوں کو رجسٹرڈ کرنے اور بنیاد پرستوں کے نئی نسل تیار کرنے والوں کو بند کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ بعض مذہبی درسگاہوں اور اداروں سے متعلق اوباما انتظامیہ کے تحفظات بھی قانون سازوں جیسے ہیں اور ان کے بقول پاکستان یہ کہتا ہے کہ ان مسائل سے نمٹنا اس کی قومی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ٹیکساس سے ریپبلکن رکن ٹیڈ پو نے کہا کہ پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے 30؍ ارب ڈالر دیئے ، پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے کے معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ وہ دو طرف کھیل رہا ہے ۔ کیلیفورنیا سے ریپبلکن رکن ڈانا روہرا بیکر نے کہا کہ پاکستان امریکا کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہا ہے حالانکہ اس ایوان کے بعض افراد اسے دوست سمجھتے ہیں ، ہم نے ایسی حکومت کو 30؍ ارب ڈالر دیئے ہیں جس سے امریکیوں کے قاتل اسامہ بن لادن کو محفوظ پناہ گاہ دی ، میں نے شکیل آفریدی کے معاملے پر اسلام آباد سے شکایت کی ہے ۔ بھارتی نژاد ڈیمو کر یٹ رکن کانگریس ڈاکٹر امریش بیرا نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کی توقع تھی ، پاکستان خطے کو غیر مستحکم کررہا ہے ۔ نیویارک سے ڈیموکریٹ رکن برائن ہگین نے کہا کہ وہ ہمارے فوجی شراکت دار ہیں لیکن وہ اپنے دشمنوں کے بھی سرپرست بھی ہیں ، 2002ء سے پاکستان کو سالانہ 2؍ ارب ڈالر امداد دی گئی حالانکہ اس کا سالانہ فوجی بجٹ 5؍ ارب ڈالر ہے ۔ ہوائی سے تعلق رکھنے والے واحد ہندو ڈیموکریٹ رکن تلسی گبارڈ نے کہا کہ اس بات کے شواہد ہیں کہ پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیز کے حقانی نیٹ ورک سے براہ راست تعلقات رہے ہیں ۔ ادھر رچرڈ بی اولسن نے علاقائی استحکام کےلئے پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے علاقائی امن واستحکام کی حمایت میں اقدامات کئے اور دہشت گردوں کی سرکوبی کےلئےامریکا کے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا۔ امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امورکی کمیٹی کو بریفنگ میں رچرڈ بی اولسن نے کہا کہ امریکا اورپاکستان نے اپنے اسٹرٹیجک مقاصد کے حصول کےلئے پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات کےلئے ذریعہ زیادہ مضبوط اورمستحکم تعلقات کو بنانے کےلئے سخت محنت کی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے علاقائی استحکام کےلئے بے حد کام کیا جس کا ایک مظاہرہ مری میں ہونے والے افغان حکومت اور طالبان حکام کے درمیان براہ راست مذاکرات تھے۔ یہ مذاکرات افغانستان میں سیاسی بحالی کےلئے بھی ایک سنگ میل تھے۔ انہوں نے گذشتہ ہفتے پاکستان میں منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کا بھی ذکر کیا اورکہا کہ یہ کانفرنس افغانستان میں طویل المدتی استحکام اورامن عمل کیلئے اہم پیشرفت تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات یا امن عمل کےلئے مرکزی سہولت کار رہے گا اور طالبان اورافغان حکومت کے درمیان دوسرے مرحلے کے براہ راست مذاکرات امن عمل کو آگے بڑھانے کےلئے سازگار فضاءپیدا کریں گے۔ رچرڈ بی اولسن نے مزید کہا کہ پاکستان باوجود مختلف چیلنجز کے مستقبل میں امریکا کا اہم شراکت دار رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سیکیورٹی اور اقتصادی طور پر پیش رفت اور ترقی کی ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی انتظامیہ نے پاکستان کی میکرو اکنامک استحکام کو بحال کیا اور اقتصادی ترقی کی شرح کو بہتری کی جانب گامزن کیا تاہم پاکستان کو اقتصادی ترقی کی راہ پر دوڑنے کےلئے ابھی ڈھانچہ سازی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے متعدد اصلاحات کی گئی اور امریکی کمپنیوں کو کمرشل مواقع فراہم کئے گئے۔