ماسکو(اے این این)اگرچہ یہ دونوں اقوام سرد جنگ کے دوران مختلف اطراف میں کھڑی تھیں تاہم روس اور پاکستان بندھن بتدریج مضبوط کر رہے ہیں۔دراصل بھارت سوویت یونین کا قریبی اتحادی تھا جو اس کو دفاعی سامان کا سب سے بڑا فراہم کنندہ تھا مگر اب بھارت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ روز افزوں مضبوط ہوتے ہوئے تعلقات بنا رہا ہے۔ اس روش نے روس کو ہمت دی کہ وہ اسلام آباد کو ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق بندش سے آزاد کر دے۔ایک امریکی اخبار ”نیشنل انٹرسٹ“نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ پاکستان سرد جنگ کے اوائل سے ہی امریکہ کا قریبی شریک کار ملک تھا۔ معاملات 2011ء میں بدلنے لگے جب امریکہ پاکستان تعلقات خراب ہونے لگے تھے۔ پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوج کی کارروائیاں جن میں عام شہری مارے جاتے تھے، ایک باہمی چپقلش جنم دینے کی وجہ بنی ۔اگرچہ حالات ٹھیک ہو چکے ہیں لیکن 2011 میں امریکہ کے ایبٹ آباد کے خفیہ آپریشن کے بعد پاکستان، امریکہ کے متبادل تعلقات بنانے بارے سوچنے لگا تھا۔ ماسکو کے حکام کو موقع ملا جس پر پاکستان نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔جنگجوﺅں سے متعلق ماسکو کے پاکستان سے وابستہ پرانے تحفظات اب کم ہو چکے ہیں چنانچہ اب پاکستان کوروس خطے میں امن کے سلسلے میں ایک اہم فریق سمجھنے لگا ہے۔ اسی اثناء میں بھارت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات فروغ پا چکے ہیں چنانچہ روس کو مزید امکان مل گیا کہ تجارت کے لیے نئے شرکاءکار تلاش کرے خاص طور پر یوکرین کے معاملے پر مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ ہتھیاروں بشمول ایم آئی-35 جنگی ہیلی کاپٹروں بارے حالیہ سودے طے پانے کے بعد روس کے سابق اتحادی بھارت کو تشویش لاحق ہوئی ہے۔معاشی بندھن بھی مضبوط ہو سکتے ہیں کیونکہ سوا دو ارب ڈالر کی ایک گیس پائپ لائن بچھانے کا سودا بھی طے پا جانے کے آخری مرحلے میں ہے۔ یہ پائپ لائن کراچی سے لاہور تک بچھائی جائے گی۔کچھ عرصے سے یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ روس پاکستان سٹیل ملز میں بھی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے 2016 ءتک اس کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا ہے اور روسی کمپنیاں اس میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔