ایتھنز(نیوز ڈیسک)یونان میں گذشتہ چھ برسوں میں کروائے جانے والے پانچویں عام انتخابات میں سابق وزیرِاعظم الیکسس تسیپراس کی بائیں بازو کی جماعت سیریزا پارٹی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ان کی مخالف کنزرویٹو جماعت نیو ڈیموکریسی نے شکست تسلیم کر لی ہے جبکہ تسیپراس نے انتخابات میں اپنی فتح کو ’عوام کی فتح‘ قرار دیا ہے۔یونانی وزارتِ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق اتوار کو ہونے والے الیکشن میں 55 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔یونانی حکام کے مطابق اب تک 60 فیصد سے زیادہ ووٹ گنے جا چکے ہیں اور سیریزا پارٹی کو 35 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ نیو ڈیموکریسی کے ووٹوں کی شرح 28 فیصد ہے۔انتہائی دائیں بازو کی جماعت گولڈن ڈان سات اعشاریہ ایک فیصد ووٹ لے کر تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔اس شرح سے سیریزا کو 300 ارکان کے ایوان میں 144 نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ نیو ڈیموکریسی کی نشستوں کی تعداد 75 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔سیریزا پارٹی چونکہ حکومت سازی کے لیے حتمی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اس لیے اس نے انڈیپینڈنٹ گریکس کو ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے اور انھوں نے حکومت سازی میں سیریزا کا ساتھ دینے پر آمادگی بھی ظاہر کر دی ہے۔رواں سال جنوری میں ہونے والے الیکشن میں سیریزا پارٹی نے 149 نشستیں لی تھیں اور اس وقت بھی وہ اپنے بل بوتے پر حکومت نہیں بنا پائی تھی۔نیو ڈیموکریسی پارٹی کے رہنما وینجیلس میماراکس نے کہا ہے کہ ’انتخابی نتائج سے لگ رہا ہے کہ سیریزا اور تسیپراس کو ہی سبقت ملے گی۔ میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں اور ان پر زور ڈالتا ہوں کہ وہ حکومت تشکیل دیں جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔‘الیکسس تسیپراس نے کہا ہے کہ یونانی عوام کے لیے ’محنت اور جدوجہد‘ کا وقت آنے والا ہے۔یونان میں موجودہ الیکشن رواں برس اگست میں سیریزا پارٹی کی ہی حکومت کے پارلیمان میں اکثریت کھونے کے بعد منعقد ہوئے ہیں۔ایتھنز میں بی بی سی کے نامہ نگار رچرڈ گیلپن کا کہنا ہے کہ انڈیپینڈنٹ گریکس کو ساتھ ملا کر سیریزا پارٹی اکثریت میں تو آ جائے گی لیکن اسے حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے کسی بڑی جماعت کو ساتھ ملانا پڑے گا۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سیریزا کی یہ فتح اندازوں سے کہیں بڑی فتح ہے۔یورپی رہنماؤں کے ساتھ بیل آؤٹ معاہدے پر رضامندی کے بعد سے سیریزا کے قائد ایلکس تسیپراس کی شہرت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔اس بیل آؤٹ پیکج میں معاشی اصلاحات جیسے اقدامات شامل ہیں جن کی مخالفت کرنے کا سیریزا نے وعدہ کیا تھا۔انھوں نے اس معاملے پر ریفرینڈم بھی کروایا جس میں 60 فیصد سے زیادہ ووٹروں نے کفایت شعاری کے اقدامات کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود انھیں معاہدے پر رضامندی ظاہر کرنی پڑی کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یونان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا۔یونان اب بھی شدید معاشی بحران کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اتوار کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تسیپراس کو مزید سخت اقتصادی اصلاحات کرنا ہوں گی۔انتخابات سے قبل دیے گئے انٹرویوز میں تسیپراس کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے ملک کو اپنی جماعت پر ترجیح دی ہے۔اگر وہ تین سالہ بیل آؤٹ کے لیے رضامند نہ ہوتے تو یونان کے یورو زون سے نکل جانے کے کافی امکانات موجود تھے۔