یہ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں کہ آیا والدین کو سکولوں کی پڑھائی پر اعتمادنہیں یا پھر وہ ٹیوشن کو بچوں کی کامیابی کا حقیقی روٹ تصور کرتے ہیں؟ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ امیگرنٹس اور نسلی اقلیتوں کے گروپ تعلیم میں اس لئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں کیونکہ ان کے والدین اس حوالے سے ان کی بہت زیادہ مدد کرتے ہیں۔ دریں اثناء ممتاز ماہر تعلیم اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر اشتیاق احمد نے برٹش پاکستانی والدین کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ سال کے دوران آکسفورڈ یونیورسٹی میں کوئی مقامی پاکستانی سٹوڈنٹس نہیں آیا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کااظہار کیا کہ پاکستانی بچوں کی کارکردگی بنگلہ دیشی بچوں سے بھی کم ہورہی ہے۔ روزنامہ جنگ کے صحافی آصف ڈار کے تجزیہ کے مطابق انہوں نے کہا کہ پاکستانی بچوں کی تعلیم کا گراف اوپر جانے کی بجائے نیچے جارہا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کی ہر نئی نسل میں تعلیمی گراف نیچے گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ والدین 15،15 گھر بناتے ہیں اور قیمتی گاڑیاں خرید کرسمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کی کوئی ضرورت نہیںہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے کہا کہ بعض پاکستانی والدین اس ملک میں باقی سارے بینیفٹس تو حاصل کرتے ہیں اور اپنی توجہ پونڈ کمانے پر لگاتے ہیں مگر تعلیم کا سب سے بڑا بینیفٹ نہیں لیتے یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کے بچوں کی بڑی تعداد ڈرگز کے معاملات میں ملوث ہوکر جیلوں میں جارہی ہے جبکہ برمنگھم لیبر کونسلر مریم خان نے کہا ہے کہ صورتحال اتنی بھی مایوس کن نہیں ہے، پاکستانی بچوں کی بڑی تعداد تعلیم میں آگے بڑھ رہی ہے تاہم نوجوانوں کو تعلیم پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ساری کمیونٹی کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے آگے بڑھنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی بچے بہت زیادہ ذہین ہیں اور ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی موجود ہے تاہم ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی اور انڈین کمیونٹی کے بچے اس لئے آگے بڑھ رہے ہیں کہ وہ تعلیم پر فوکس کرتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کو بھی تعلیم پر زیادہ فوکس کرنا ہوگا