اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جنوبی میکسیکو اور وسطی امریکا کے گھنے جنگلات میں ہمیں مایا تہذیب کا سراغ ملتا ہے۔ وسطی میکسیکو کے حکمرانوں نے یہاں بہت دفعہ حکومت کی مگر کوئی بھی سلطنت مسلسل اپنا عروج قائم نہ رکھ سکی اورآخر کارزوالکا شکار ہوجاتی ۔3000 سال قبل مایا تہذیب کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ یہ سینکڑوں سال تک زندہ رہی۔ اس تہذیب کے فرزندوں نے یہاں کے خطرناک اورحالات کا مکمل طاقت
اور کوشش سے مقابلہ کیا اوراس جگہ کو قائم و دائم اور آبادرکھنے کیلئے فصلیں اگائیں اور انہوں نے اپنی بے پناہ محنت کے بعد جس تہذیب کا جنم ہوا جو اردگرد کی تمام تہذیبوں سے ہزار درجے اچھی تھی اور وہ مایا تہذیب تھی۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ وہ فنون لطیفہ کے دل دادہ تھے، سفر کا تصور بھی انھوں نیسب سے پہلے پیش کیا۔ ہولمل شہرایسے گھنے جنگل میں موجود ہے جہاں بے انتہا گرمی ہے بس بندروں کے چیخنے کی آوازیں کے خوف طاری کر دیتی ہے۔یہاں آکر ایسا لگتا ہے ۔جیسے انسان پہاڑیاں کے بڑے دائروں کی صورت میں پھنس چکا ہے اور قریب جانے پر علم ہوتا ہے کہ یہ پہاڑیاں شہروں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں اور بعض کے اندر تو سرنگیں بھی موجود ہیں۔ایکھ کر تو پتہ نہیں چلتاپر گماں ہوتا ہے کہ یہ پہاڑیاں نہیں ، اہرام ہیں۔ وہ قدیم اہرام جو ہزاروں سال پہلے مایا تہذیب کی تباہی کے بعد زوال پذیر و زمین بوس ہونے کیلئے باقی رہ گئے تھے۔250 سے 900 عیسوی میں ہولمل شہرمیں مایا تہذیب سے جڑی آبادی تھی۔ وسطی امریکا اور شمالی میکسیکو میں آج نظر آنے والی ثقافت اسی دور میں وجود میں آئی ۔ یہ سیاسی انقلابات کا دور تھا، جس میں دو متحارب ریاستیں بالادستی کی خواہش میں الجھی رہیں پھر ایک ریاست نے مایا تہذیب کی تاریخ میں ایکلمبااور واضعزمانہ گزارااور یہ وقت تھا جب ’’کینوئل‘‘ خاندان کے ’’سانپ بادشاہ‘‘ نے حکمرانی کی، کچھ عرصہ قبل
کوئی بھی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اب ماہرین آثار قدیمہ ہولمل و دیگر شہروں سے ملنے والے شواہد اور باقیات کی مدد سے سانپ بادشاہت کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سن 2000 سے پہلے ہولمل ماہرین کی توجہ کا مرکز کبھی بھی نہیں رہا، کیوں کہ کبھی بھی اتنا مشہور نہیں رہا جتنا اس کا نزدیکی شہر ’’ٹسکال‘‘ تھا۔ آثار قدیمہ کے ایک ماہرایسٹراڈ یہاں آیا۔ اس کے ہیاں آنے کا مقصد کسی ماورا چیز کی
تلاش نہیں تھی بلکہ وہ مایا تہذیب کی جڑوں کی تلاش میں یہاں آیا۔ سب سے پہلی چیز جو اس کو ملی وہ ہولمل کے مرکزی اہرام کے پاس ایک عمارت تھی، جہاں اس مقدس دیوار کے باقیات موجود تھے جس کی زیارت کیلئے دور دراز جگہوں سے لوگ یہاں آتے تھے۔ ان لوگوں نے خود ہی اس دیوار کو مسمار کیا کیونکہ وہ خود اپنی تاریخ چھپانا چاہتے ہوں۔ماہرین کو یہاں سے سینکڑوں پتھروں سے بنی ہوئی قبریں بھی ملیں، جن کے کتبوں
پر موجود تصاویر اور عبارتوں سے تحقیق دانوں نے ’’ٹسکال‘‘ کی تاریخ کو ازسر نو تعمیر کیا۔ 1960 میں ماہرین کو اس قدیم شہر کے اطراف بکھری باقیات سے مزید تراشے ملے۔ ان میں موجود تمام علامتیں اس مسکراتے ہوئے سانپ کے بادشاہ ہونے کا واضح اشارہ کر رہی تھیں۔ 1973 میں ایک اور ماہر آثارقدیمہ ’’جوائس مارکس‘‘ کو کچھ اور تراشے بھی ملے، جن میں اس شہر کی حکمرانی کی علامات اور خطابات درج
تھے۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ان تراشوں کا تعلق بھی ’’ٹسکال‘‘ شہر ہی سے تھا۔بہرحال ان سانپ حکم رانوں سے متعلق اب بھی بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مثلاً وہ کیسے رہتے تھے؟ ان کا طرز حکومت کیسا تھا؟ وہ جنگیں کس طرح لڑتے تھے اور سب سے اہم سوال تو یہ کہ کیا ان کا حقیقت سے کوئی تعلق تھا؟
ماہرین کیمطابق 650 میل اونچے پہاڑوں کے شہر ’’ٹوتھیکان‘‘ کی مدد سے انھوں نے یہ طاقت ور ریاست بنائی۔ ٹوتھیکان کو اب میکسیکو کے نام سے جانا جاتا ہے۔