مینگورہ، سوات(مانیٹرنگ ڈیسک)تحصیل بری کورٹ کے دادہارا پہاڑوں میں نویں صدی کا ایک قلعہ دریافت ہوا ہے جس پر ماہرین آثار قدیمہ نے حکومت سے اس کی حفاظت کا مطالبہ کردیا، یہ قلعہ بھی ہندویونانی تہذیب کے دوران بنائے گئے قلعوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ ایکسپریس ٹربیون کے مطابق مقامی ماہرآثار قدیمہ امجدعلی نے کہاکہ یہ قلعہ ایک بڑے علاقے پر محیط ہے لیکن بدقسمتی سے عدم توجہی اور غیرقانونی کھدائی کی وجہ سے قدیم محل تباہ ہوگیا، اس قلعے کی بلندی سے ایک گارڈپورے لوئر سوات پرنظررکھ سکتاہے ، صرف لوئرسوات ہی نہیں بلکہ مالاکنڈ پاس، تھانہ ایریا، دیر کے کچھ علاقے اور ضلع بونیربھی یہاں سے دکھائی دیتاہے ۔ اس قلعے کا دورہ کرنیوالے ثقافتی کارکن انور انجم نے بتایاکہ قلعے کے گرداونچی نیچی جگہیں ہیں ، صدیاں پہلے معماروں کو یہ قلعہ تعمیر کرنے میں مشکلات کاسامنا رہاہوگا، ہندویونانی تہذیب کے زوال کے دنوں میں یہ قلعہ سٹریٹجک پوسٹ کے طورپر استعمال ہوتارہا جسے بعدازاں غوری اور غزنوی قبائل نے بھی استعمال کیا۔اب بھی قلعے کی کچھ بیرونی دیواریں دیکھی جاسکتی ہیں لیکن زیادہ تر مقامی لوگوں اور غیرقانونی کھدائی نے تباہ کردی ہیں، مقامی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ قلعے کو اپنی تحویل میں لیں اور اسے بچائیں۔بری کوٹ کے ایک مقامی شہری تاجدارعالم نے بتایاکہ مقامی لوگ اس قلعے کی تاریخی اہمیت سے ناواقف ہیں اور اس کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ مقامی لوگوں کایقین ہے کہ اس قلعے کا تعلق کافروں سے ہے ۔ سوات میں ماہرین آثارقدیمہ نے بتایاکہ یہاں چھ بڑے قلعے ہیں اورہندویونانی دورمیں سوات، دیر اور بونیر کی حفاظت کیلئے 30کے قریب اونچے اونچے مینار بنائے گئے ہیں جس میں سے زیادہ تر دریائے سوات کے گردونواح میں بنائے گئے تاکہ علاقے پر نظررکھ سکیں۔خیبرپختونخواڈائریکٹوریت برائے آثارقدیمہ اور میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹرعبدالصمد خان نے بتایاکہ حالیہ دونوں میںسوات میں دریافت ہونیوالے تاریخی قلعے کی دیکھ بھال اور حفاظت کیلئے اہم اقدامات کرلیے گئے ہیں جبکہ سوات میوزیم کے حکام کو جلدازجلد موقع پر جانے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی گئی۔