اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بھارت میں کم عمری کی شادی محض ایک رواج نہیں بلکہ وباءہے اور ایک اندازے کے مطابق اس ملک میں ہر پانچ میں سے ایک دلہن کی شادی بچپن میں ہوتی ہے، لیکن ا س کے باوجود عوام اور حکام نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کررکھی تھی۔ حال ہی میں جب ریکھا کا لیندی نامی لڑکی نے اپنی دردناک کہانی ایک کتاب کی صورت میں شائع کی تو اچانک سویا ہوا بھارتی معاشرہ ہڑبڑا کر اٹھا اور سارے ملک میں کم عمری کی شادی کے خلاف آواز اٹھنے لگی۔
ریکھا نے اپنی کتاب “The Strength to Say No” میں لکھا کہ جب وہ محض 11 سال کی تھیں تو ان کے گھر والوںنے ان کی شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اگرچہ ان کے ہاں بچپن کی شادی کا رواج نسلوں سے چلا آرہا تھا مگر انہوں نے ہمت کی اور شادی سے انکار کردیا، جس کی انہیں خوفناک سزا بھگتنا پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی بڑی بہن کی شادی 12 سال کی عمر میں ہوچکی تھی اور جب وہ 11 سال کی تھیں تو ان کی شادی کی تیاریاں بھی شروع ہوگئیں۔ جب انہوں نے انکار کیا تو ان کی اپنی ماں نے ہی انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور لاٹھی سے اس قدر پیٹا کہ وہ چیخ اٹھیں۔ بات اسی پر ختم نہ ہوئی بلکہ انہیں کھانے سے محروم کرکے بھوکا مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ ریکھا نے حیرت انگیز ہمت کا ثبوت دیتے ہوئے تمام تر تشدد کے باوجود شادی سے انکار کردیا تو بالآخر ایک ٹیچر کی مداخلت سے اس معصوم لڑکی کی جان خلاصی ہوئی اور شادی کی بجائے سکول جانے کی اجازت مل گئی۔
ریکھا کی کتاب شائع ہونے کے بعد گویا سارا بھارت ان کی آواز میں آواز ملارہا ہے اور ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #strengthtosayno کے ذریعے ہزاروں لوگ کم عمری کی شادی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔