واشنگٹن(این این آئی)ڈی این اے ویسے تو جینیاتی معلومات کی ترسیل کا کام کرتا ہے لیکن اب سائنس دانوں نے اسے ڈیجیٹل معلومات ذخیرہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔میڈیارپوررٹس کے مطابق سائنس دانوں نے کرسپر نامی ایک ٹول استعمال کر کے بیکٹیریا کے ڈی این اے کے اندر پانچ تصاویر پر مبنی ایک ویڈیو ڈال دی۔
بعد میں انھوں نے اس ڈی این اے کو سیکوئنس کر کے اس کے اندر سے ویڈیو نکال لی۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ بیکٹیریا نے واقعی توقعات کے مطابق ڈیٹا اپنے ڈی این اے کے اندر شامل کر دیا تھا۔یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ۔امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک انسانی ہاتھ کی تصویر اور ایک گھوڑے کی ویڈیو لی اور اسے بیکٹریا کے نیوکلیوٹائیڈز میں تبدیل کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایسا کوڈ تیار کیا جو ویڈیو کے ہر انفرادی پکسل کی نمائندگی کرتا تھا۔سائنس دانوں نے اس کے بعد کرسپر ایڈیٹنگ ٹول کی مدد سے دو پروٹین مالیکیول تیار کیے اور ان کے ذریعے اس کوڈ کو ای کولائی بیکٹیریا کے جینوم میں داخل کر دیا۔ویڈیو کا ہر فریم منتقل کرنے میں پانچ دن لگے۔یہ ڈیٹا صرف ایک بیکٹریا تک محدود نہیں تھا بلکہ اسے مختلف جراثیم کے ڈی این اے میں شامل کیا گیا تھا۔ تحقیق کے شریک مصنف سیتھ شپمین کہتے ہیں: ‘یہ معلومات صرف ایک خلیے تک محدود نہیں تھیں، اس لیے ہر خلیہ ویڈیو کے صرف چند حصے ہی دیکھ سکتا تھا۔
اس لیے ہمیں مختلف زندہ ٹکڑوں سے جوڑ کر مکمل فلم بنانا پڑی۔یہ ویڈیو حاصل کرنے کے لیے تحقیق کاروں نے بیکٹریا کا ڈی این اے ‘پڑھا’ اور اس میں تصاویر حاصل کر لیں۔اس کام میں ٹیم کو 90 فیصد درستگی حاصل ہوئی۔ شپمین نے کہاکہ ہمیں اس بات کی بہت خوشی ہے۔سائنس دانوں کو امید ہے کہ وہ اس تکنیک کی مدد سے بالآخر ‘مالیکیولر ریکارڈر’ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔تمام جانداروں کے ڈی این اے میں بیتحاشا معلومات ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اس صلاحیت کو تصاویر اور وڈیو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔