یارکشائر (نیوزڈیسک )سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹے افراد کو مختلف گروہوں کا علاج مختلف طریقے سے کرنا چاہیے۔سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ڈاکٹروں کو موٹاپے کے معاملے میں ’ون سائز فٹس آل، یعنی ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کی حکمتِ عملی ترک کر دینی چاہیے۔یارکشائر میں 4,144 موٹے افراد کے تجزیے سے یہ سامنے آیا ہے کہ وہ چھ مختلف درجات میں آتے ہیں اور ہر کسی کو وزن کم کرنے کے لیے مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔جرنل آف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونی والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے ایک کی مثال زیادہ شراب پینے والے لوگ ہیں۔یونیورسٹی آف آکسفرڈ کی پروفیسر سوسن جیب کہتی ہیں کہ اس تحقیق نے یہ نہیں بتایا کہ ان خصوصیات سے کیا لوگوں کے وزن کی وجہ بھی پتہ چلتی ہے۔باڈی ماس انڈیکس کے مطابق 67 فیصد مرد اور 57 فیصد عورتوں کا یا تو وزن زیادہ ہے یا وہ موٹے ہیں۔یونیورسٹی آف شیفلیڈ کے ڈاکٹر مارک گرین، جنھوں نے تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ صرف لمبائی اور وزن کا پیمانہ ہے اور میرے خیال میں اس میں سبھی کو ایک گروہ میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ دراصل ایسا نہیں ہے۔‘تحقیقاتی ٹیم نے یارک شائر ہیلتھ سٹڈی کو استعمال کرتے ہوئے موٹے افراد کی صحت اور رویوں کی خصوصیات کا تجزیہ کیا۔ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے موٹے افراد کو چھ گروہ میں پایا۔نوجوان مرد جو زیادہ شراب پیتے تھے ،درمیانی عمر کے لوگ جو ناخوش اور بے چین تھے ،بوڑھے لوگ جو جسمانی صحت کے مسائل کے باوجود خوش تھے ،نوجوان صحت مند خواتین ،بوڑھے امیر اور صحت مند لوگ ،بہت خراب صحت والے افرادشامل ہیں۔ڈاکٹر گرین نے بی بی سی نیوز کی ویب سائٹ کو بتایا ’میرے خیال میں ہمیں ون سائز فٹس آل کی پالیسی کی بجائے مختلف گروہوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘’ہمیں ضرورت ہے کہ لوگ ان مختلف گروہوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے سوچیں کہ کس طرح پیغامات ان کے مطابق بنائے جائیں، جسم کے وزن میں الکحل کے کردار کے حوالے سے پیغام نوجوان مردوں تک پہنچانا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ نوجوان عورتوں کے لیے مناسب نہ ہو۔‘