اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگارانصار عباسی اپنے کالم ”تبلیغ کو بھی ایوارڈ، ناچ گانے کو بھی ایوارڈ” میں تحریر کرتے ہیں کہ 23مارچ کو صدرِ مملکت نے تبلیغ اسلام کے سلسلے میں مولانا طارق جمیل کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں قومی ایوارڈ سے نوازا۔ اسی تقریب میں صدر عارف علوی نے ناچ گانے والوں کو بھی ان کی
فن کے میدان میں خدمات کے سلسلے میں قومی ایوارڈ سے نوازا۔ مولانا طارق جمیل کی تبلیغ کا مقصد لوگوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق برائی کے کاموں سے روکنا اور بھلائی کے کاموں کی ترغیب دینا ہے جس کو حکومت کی طرف سے سراہا گیا۔ دوسری طرف ہماری فلموں اور گانوں کو سراہا گیا باوجود ان کے اس معیار کے جس کے بارے میں وزیراعظم خان صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ مغربی اور بھارتی فلموں کی نقالی میں ہم بھی اپنے معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں، فحاشی کو پھیلایا جا رہا ہے اور ہماری اقدار اور خاندانی نظام کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود ناچ گانے والوں کے لئے عمران خان صاحب کی حکومت، جس کا نعرہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں کے مطابق چلانا ہے، نے پچھلی حکومتوں کی طرح اس سال بھی ناچنے، گانے والوں کو قومی ایوارڈ دیے۔ ایک دو سال قبل آئٹم سانگ کرنے والی ایک خاتون کو قومی ایوارڈ دیا اور یہ سلسلہ بلا سوچے سمجھے چل رہا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہماری ریاست اور
حکومت کرنا کیا چاہ رہی ہے؟ کیا ہمیں اس ملک کو اسلامی تعلیمات کے مطابق چلانا ہے یا مغرب اور بھارتی کلچر کو یہاں ریاستی سطح پر پروموٹ کرنا ہے؟ ناچنے، گانے والوں کا اس ملک کی اشرافیہ پر اتنا اثر ہے کہ ان کو ہیروز کی طرح سے پیش کیا جاتا ہے۔ ریاست کی اس
دوغلی پالیسی کے متعلق میں نے اپنے ایک حالیہ ٹویٹ کے ذریعے سوال اٹھایا:کہتے ہیں کہ ہمارا زور تعلیم، ریسرچ، سائنس و ٹیکنالوجی پر ہونا چاہئے! کوئی پوچھے ذرا یہ تو بتا دیں کہ 23 مارچ کو کتنے ایوارڈز تعلیم کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والوں کو اور کتنے ایوارڈز
ناچنے گانے والوں کو دیے؟ اس سوال کے جواب میں ترجیحات اور ترقی کا مطلب سمجھ آ جائے گا۔جب حکومت ناچنے، گانے والوں کو فن کے نام پر ریاستی سطح پر نواز رہی تھی تو اس وقت پاکستان کے اساتذہ کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر اپنے حقوق کے لئے احتجاج کر رہے تھے۔
جنہیں اس قوم کا معمار کہا جاتا ہے، انہیں ہر آئے دن پولیس کے ہاتھوں ڈنڈے کھانا پڑتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں دنیا بھر میں آئے دن پاکستان کا نام روشن کرنے والے طلبا و طالبات میں سے کتنوں کو ریاست نے 23مارچ یا 14اگست کے موقعوں پر قومی ایوارڈز سے نوازا؟
یہاں تو ہیروز اور اسٹارز کا Conceptہی ہالی وڈ اور بالی وڈ والا اپنا لیا گیا ہے جو نہ صرف پاکستان کے حصول کے مقصد کے خلاف ہے بلکہ آئینِ پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ مغرب اور بھارتی فلم انڈسٹری کی طرح فحاشی و عریانی
پھیلانے کی بجائے ترکی کی طرح ایسے ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں جو دیکھنے والے کو اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے ہیروز سے روشناس کرائیں۔ ہماری فلم، ڈرامہ انڈسٹری اور اشتہاروں کا اتنا برا حال ہے اور بیہودگی اس قدر عام ہو چکی ہے کہ تیس چالیس سال پہلے فلموں
ڈراموں میں کام کرنے والے بھی اعتراض کرتے نظر آتے ہیں لیکن افسوس! خان صاحب کی حکومت میں بھی اس خرابی کی ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جس کے خان صاحب خود مخالف ہیں۔ آئین پاکستان نہ صرف اسلامی، اخلاقی معیارات کی پابندی پر زور دیتا ہے بلکہ
ریاست اور تمام ریاستی اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ماحول فراہم کیا جائے لیکن یہاں تو ناچنے، گانے اور آئٹم سانگ کرنے والوں کو ہیروز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ قابلِ مذمت
اقدام ہے۔ پی پی پی، ن لیگ، مشرف سب یہی کچھ کرتے رہے لیکن عمران خان کی حکومت سے گلہ اس لئے زیادہ ہے کیونکہ وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں اور اس خرابی سے بھی واقف ہیں جس کی نقالی میں ہم اپنے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دینی و معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم 23مارچ کی تقریب میں حالات کیا تھے لیکن اچھا ہوتا احتجاجا ًمولانا طارق جمیل دیا گیا ایوارڈ واپس کر دیتے۔