نامور کالم نگار محمد اسلم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ، پارک ویسٹ میں ایک بیڈ کا فلیٹ پانچویں منزل پر واقع ہے۔ جولائی 2007ء میں تین لاکھ پاؤنڈ سے اسکی خرید ہوئی۔ مالیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسی طرح کے دو اور فلیٹ ویسٹ پارک میں جون سے اگست 2017ء کے دوران پانچ لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہوئے تھے۔ ربل آرچ میں علیم خان کے دو مزید فلیٹ ہیں جو انہوں نے اپنی آف شور کمپنی کے ذریعے اگست 2002ء
میں دو لاکھ بیس ہزار پاؤنڈ میں خریدے۔ گزشتہ سال ماربل آرچ میں دو اسی طرح کے فروخت ہونیوالے فلیٹوں کی قیمت چار لاکھ پچانوے ہزار سے سوا چار لاکھ پاؤنڈ ادا کی گئی۔ علیم خان کی تیسری جائیداد ویسٹ کلف اپارٹمنٹس میں بتائی گئی ہے۔ یہ لندن کا شمالی وارف روڈ کا علاقہ ہے۔ چھ ماہ قبل یہ جائیداد انہوں نے چار لاکھ پانچ ہزار پاؤنڈ میں خریدی۔ عمران خان کے قریبی دوست اور رازداں زْلفی بخاری وسطی لندن میں دو قیمتی ترین جائیدادوں کے مالک نکلے ہیں۔ برطانوی لینڈ رجسٹری کیمطابق بریڈبری ریسورسز لمیٹڈ کمپنی زْلفی بخاری سے جْڑی ہے۔ 30 اینسمور گارڈنز کے وہ مالک بتائے گئے ہیں۔ جس کی مارکیٹ ویلیو کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ جولائی 2008ء میں اینسمور گارڈنز میں ایک فلیٹ نو لاکھ انچاس ہزاور نو سو پچاس پاؤنڈز میں فروخت ہوا۔ ثمینہ درانی بھی وسطی لندن میں ایک قیمتی رہائشی جائیداد کی مالک ہیں۔ ارمانی ریور لمیٹڈ کے ذریعے انہوں نے یہ جائیداد خریدی۔ یہ آف شور کمپنی بہاماس میں قائم ہے جس نے چار لاکھ اسی ہزار پاؤنڈ کے بدلے ستمبر 2002ء میں یہ جائیداد خریدی۔ اس وقت اس جائیداد کی قیمت دس لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح کے دو فلیٹ 2015ء اور2016ء میں بالترتیب دس لاکھ اور چودہ لاکھ پاؤنڈز سے زائد میں فروخت ہوئے۔
صرف سیف اللہ خاندان ایسا ہے جس نے پوری شدت کے ساتھ اس کہانی کی نہ صرف تردید کی، ان جائیدادوں کی ملکیت سے انکار کیا ہے بلکہ دس ارب روپے مالیت کا قانونی نوٹس بھی متعلقہ رپورٹر، اسکے ادارے اور انتظامیہ کو ارسال کیا ہے۔ وہ لندن اور پاکستان دونوں جگہوں پر قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ لندن میں تو قانون میں جان ہے، ضابطوں پر عمل ہوتا ہے اور ازالہ حیثیت عرفی محض نام کا قانون نہیں بلکہ اگر
اخبار یا ٹی وی کیخلاف غلط حقائق شائع یا نشر کرنے کا الزام درست ثابت ہو جائے تو اس ادارے کا جنازہ نکل جاتا ہے۔اتنا بھاری جرمانہ ہوتا ہے کہ عموماً متعلقہ ادارہ ہی بند ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں البتہ معاملہ اْلٹ ہے۔ یہاں جس کی پگڑی ایک دفعہ زردآلود کر دی جائے وہ خواہ کوئی سا بھی قانونی پاؤڈر لے کر دھوتا رہے، نسل در نسل لوگوں کو وہ الزام یاد رہتا ہے، افسوس مگر تردید یا اسے جھٹلانے کی بات ہمیشہ فراموش ہی کی جاتی ہے۔
یہ ایک معاشرتی المیہ ہے۔ قانون کی کمزوری اور ضابطوں پر عدم عملدرآمد ہے۔ سیف اللہ خاندان نے اپنے نامور قانونی معاونین حسن، کونین نفیس کے ذریعے سامنے آنیوالے مؤقف میں کہا کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ نہ تو انگلینڈ میں کسی ایسے فارم ہاؤس کے مالک ہیں اور نہ ہی جرسی یا بیلائز میں انکی کوئی آف شور کمپنی ہے۔ انکے مطابق یہ صریحاً جھوٹی کہانی ہے جسے سیف اللہ خاندان سے منسوب کر کے چلایاگیا۔ اس بے احتیاطی کے نتیجے
میں ایک معتبر سیاسی و کاروباری خاندان کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا اور ان کی عزت عوام کی نظروں میں کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیمرا کے سامنے بھی شکایت کی جھولی پھیلائی گئی ہے۔ متعلقہ میڈیا گروپ سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور پیمرا سے درخواست کی گئی کہ میڈیا گروپ کی غیر ذمہ داری کا نوٹس لیکر اسکے خلاف قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کی جائے اور ان کیخلاف نشر یا شائع کردہ تمام مواد ہٹایا جائے۔
ہمایوں سیف اللہ خان، انورسیف اللہ خان، سلیم سیف اللہ خان، جاوید سیف اللہ خان اور اقبال سیف اللہ خان اور انکے خاندان کے افراد نے اسے زرد صحافت کی نادر مثال قرار دیا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ سیف اللہ خاندان کیخلاف اتنی بڑی خبر دیتے ہوئے ان کا مؤقف معلوم نہیں کیا گیا۔ ورنہ وہ اسی وقت اسکی تردید کر دیتے تاکہ یہ تمام افسانہ اس طرح میڈیا کی زینت نہ بنتا۔ وہ قانون اور ضابطے کے تحت اثاثے ظاہر کر چکے ہیں۔ ان کا یہ مؤقف بھی ہے کہ
معاملہ پانامہ تحقیقات سے جْڑا ہونا بھی من گھڑت ہے۔ متعلقہ میڈیا گروپ کو پندرہ دن کا وقت دیا گیا ہے۔ دس ارب روپے ہرجانہ کی رقم بیت المال میں جمع کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پیمرا کو درخواست کی نقل شکایات کونسل اسلام آباد کی چیئرپرسن ڈاکٹر شاہ جہاں سید کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اور اسی طرح کے ‘‘پیرا شوٹرز’’ کی وجہ سے صحافت کی ساکھ پہلے ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اب یہ نیا تماشا شروع ہونے جا رہا ہے جس کی قطعی تردید آنے والے دنوں میں نئے حوادث کی نقش گری کرے گی۔