بدھ‬‮ ، 26 جون‬‮ 2024 

نوازشریف کا انجام کیا ہوگا؟معروف صحافی نے اسلامی تاریخ کا سچا واقعہ بیان کرتے ہوئے کیا پیش گوئی کردی

datetime 19  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ممتاز محل کا لخت جگر دارا شکوہ مغلیہ روایات کا بہترین وارث تھا۔ شاہجہاں کو ممتاز محل کی موت کا اتنا افسوس ہوا کہ اس کی یاد میں لافانی شاہکار تاج محل کھڑا کر دیا۔ شاہجہاں کا دوسراقابل فخر ورثہ دارا شکوہ تھا جو کئی کتابوں کا مصنف، حضرت میاں میرؒ اور دوسرے درویشوں کا عقیدت مند، آرٹ اور فن کا دلدادہ، عوام دوست اوررحم دل تھا۔ معین باری نے دارا شکوہ پر کتاب لکھی

تو جہاں جگہ جگہ سے معلومات اکٹھا کیں وہاں دارا شکوہ کی شادی کے موقع پر کی گئی آتش بازی اور اس کی اپنےبھائیوں مراد بخش، شاہ شجاع اور اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ گھڑسواری کرتے ہوئےہاتھ سے بنی ہوئی پینٹنگ بھی شامل کردیں۔ ایک اور تصویر میں دارا شکوہ اپنے باپ شاہجہاں کو عقاب کا تحفہ پیش کر رہا ہے۔ شاہجہاں نے اپنے دور ِعروج ہی سے دارا شکوہ کواپنا جانشین بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور یہ فیصلہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ دارا شکوہ کے درجے اور مناصب سے یہ اعلان صاف نظر آتا تھا۔ دارا شکوہ مغل اعظم اکبر کی طرح سادھوئوں سنتوں اور درویشوں سے محفل کرتا، پرندوں کی تصویریں بناتا، کتابیں لکھتا اور یوں عدم برداشت اور انتہا پسندی کے خلاف اپنا موقف، اپنے قول و عمل سے ثابت کرتا۔ بس پھر کیا تھا کہ نظر بد پڑی۔بھائیوں میں اختلاف اتنے بڑھے کہ آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ درباری سازشوں نے زور پکڑا، ا ورنگزیب کا پلڑا بھاری رہا اور دارا شکوہ اور اس کےبیٹے کو گرفتارکرکےدہلی کے بدنام زمانہ جلاد نذر بیگ کے حوالے کردیا گیا۔ چشم فلک کو 360 سال پہلے 29اگست 1659ء کا وہ دن یاد ہے جب شاہجہاں کے ولی عہد دارا شکوہ اور اس کے شہزادے بیٹے سفیر الشکوہ کو ٹھگنے قد کی مادہ ہتھنی پر پھٹے پرانے کپڑے پہنا کر دلّی کی سڑکوں پر پھرایا گیا۔

نذر بیگ ننگی تلوار لہرائے ساتھ موجود تھا۔ لوگ رو رہے تھے۔ وہ فقیر اور درویش جو دارا شکوہ سے امداد لیتے تھے، ان کی سسکیاں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ مغلیہ دور کے مشہور غیر ملکی سیاح برنیئر نے جو اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا، لکھا ہے کہ ’’دلّی کامجمع اس طرح رو رہا تھا کہ جیسے ان کے اپنے خاندان پر کوئی آفت آگئی ہو۔‘‘ اورنگزیب چاہتا تھا کہ دارا شکوہ کی تذلیل ہو، اسی لئے گلیوں میں پھرایا مگر اگلے ہی روز اس کا

ردعمل اس کے بالکل الٹ ہوا۔ 30اگست 1659ء کو دارا شکوہ کا ساتھ چھوڑ کر عالمگیر کا ساتھ دینے والا افغان جنرل ملک جیون جب اپنی مسلح سپاہ کے ساتھ دلّی کے بازار سےگزر رہا تھا تو فقیروں اور دکانداروں نے اس پر حملہ کردیا۔گھروں کے چوباروں سے خواتین نے اس پر پتھرپھینکے، کئی نوجوانوں نے چاقو ایسے گھمائے کہ ملک جیون کے سپاہی زخمی کرڈالے۔ ایسا لگتا تھا کہ دارا شکوہ کی ہمدردی میں دلّی کےلوگ بغاوت پر اتر آئے ہیں۔

ایسے میں شاہی پولیس نے ملک جیون اور اس کے ساتھیوں کو بچایا۔ اورنگزیب عالمگیر نے فوراً ہی اپنے بھائی دارا شکوہ اور بھتیجے سفیر الشکوہ کے قتل کے احکامات جاری کردیئے۔ خود بھائی کا کٹا ہوا سر منگوا کر دیکھا اور پھر اسے سر بازار لٹکانے کا حکم دیا تاکہ باغیوں کو عبرت ملے۔ بظاہر تو یہ کہانی360سال پرانی ہے مگر برصغیر میں عوام کے ہر محبوب رہنما اور بادشاہ کے ساتھ دارا شکوہ والا سلوک ہی ہوتا آیا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ

تاریخ میں عوام کے ہر منتخب وزیراعظم کا یہی حشر ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور مارشل لا کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ، دارا شکوہ کے واقعے کا ہی اعادہ تھا۔ اب بھی کچھ نہیں بدلا۔ آج کا دارا شکوہ نواز شریف ہے۔ مقدمات پر مقدمات ہیں، الزامات کا طوفان ہے۔ آنے والے دن سزائوں کے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ تھوڑی بہت بغاوت کی چنگاریا ں بھی سلگ اٹھیں لیکن اورنگزیب وںاور ریاست کی ظالمانہ طاقت کے سامنے عوامی

طاقت کھڑی نہیں رہ سکتی۔ دارا شکوہوں کو شکست ہونا برصغیر کا مقدر رہا ہے۔ عوام کی تقدیر تبھی بدلے گی جب کبھی دارا شکوہ جیتنا شروع ہوں گے۔ہارنا دارا شکوہ کی تقدیر سہی، مگر آخر کچھ غلطیاں دارا شکوہ بھی تو ایسی کرتے ہیں کہ اورنگزیب کو جیتنے کا موقع دیتے ہیں۔ دارا شکوہ بھٹو نے اپنے نظریاتی اتحادی ولی خان کو اورنگزیب ضیاء کا ساتھی کیوں بننے دیا؟ دارا شکوہ نواز شریف نے اپنے سیاسی اتحادی زرداری کو ناراض کرکے

مخالفوں کی طرف کیوں دھکیلا؟ وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے دارا شکوہ اورنگیزیبوں سے بہتر گورننس کریں گے، بہتر منصوبہ بندی کریں گے اور ہر دفعہ ہار کر تاریخ کا حصہ بننے کی بجائے کب ایسی بھرپور جدوجہدکریں گے کہ آئندہ کوئی دارا شکوہ نہ ہارے؟ ہر بار مصالحت، مفاہمت اور درمیانی راستوں پر چلنے کی وجہ سے دارا شکوہ بینظیروں اور دارا شکوہ نوازوں کو مکمل جمہوریت کی منزل نہ مل سکی۔ اصل میں مکمل جمہوریت کی

راہ میں آنے والی مصلحت، مفاہمت اور درمیانی راستہ ہی ہر بار دارا شکوہ کو ہراتا رہا ہے۔ دارا شکوہ اپنے آہن پوش دستے کو کڑی دھوپ میں کھڑا کرکے انہیں اپنے خلاف کرلیتا ہے اور ہمارے سیاسی دارا شکوہ اپنی بیڈگورننس اور اپنی جمہوری صفوں میں شگاف ڈالنے سے کمزور ہوجاتے ہیں اور پھر جب جنگ کا وقت آتا ہے تو اپنی انہی کمزوریوں کی وجہ سے اورنگزیب کا بازوئے شمشیر زن انہیں شکست دے ڈالتا ہے۔ دارا شکوہ کی کہانی میں

عوام کا قصور بھی صاف نظر آتا ہے۔ وہ دارا شکوہ کی تذلیل پرملک جیون کے لشکر پر پتھر تو پھینکتے ہیں مگر اسے ہرا نہیں پاتے۔ بھٹو کی پھانسی پر خودسوزیاں تو کرتے ہیں مگر سوختہ سامانی سے کوئی انقلاب برپا نہیں کر پاتے۔ نواز شریف کے جلسوں میں گلے پھاڑ کر نعرے تو لگاتے ہیں مگر اس کی خاطر جیلیں نہیں بھرتے۔ مظلوم عوام نے دارا شکوہ کو ہارنے سے روکنا ہے تو نیم دلی سے نہیں بھرپور انداز سے سیاست کرنی ہوگی۔

موضوعات:



کالم



اگر کویت مجبور ہے


کویت عرب دنیا کا چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ صرف 17 ہزار…

توجہ کا معجزہ

ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس کوئی…

صدقہ‘ عاجزی اور رحم

عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور…

شرطوں کی نذر ہوتے بچے

شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے…

یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…