کراچی(این این آئی)گوہر گروپ آف کمپنیز کے چیئر مین اور ممتاز بزنس رہنما حنیف گوہر نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ڈھائی سال کے غورو خوص کے بعد کم آمدنی والے افراد کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے اعلان کی جانے والی نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم سے غریب طبقہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گاکیونکہ اس اسکیم کا جو طریق کار
طے کیا گیا ہے اس کے مطابق ایک عام آدمی کو گھر کی خریداری کے لیے 30فیصد سرمائے کا خود بندوبست کرنا ہوگاجبکہ بقیہ 70فیصد سرمایہ بلڈرزکو لگانا ہوگا جس کے بعد بنکوں کی جانب سے قرضہ فراہم کیا جائے گا بشرطیکہ وہ رہائشی پروجیکٹ ایک سال کے اندر مکمل کیا گیا ہو۔انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کے تحت کم آمدنی والے افراد کو کم سے کم قیمت کا فلیٹ 35لاکھ روپے میں بناکر دینے کا وعدہ کیا جارہا ہے جبکہ ان کی کمپنی کی جانب سے اسی طرح کا کراچی میں فلیٹ 20لاکھ روپے کا فروخت کیا جارہا ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نیا پاکستان ہائوسنگ کے تحت غریب افراد کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔حنیف گوہر نے کہا کہ وزیر آعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل دو مرتبہ ایسو سی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرزا(آباد) کے دورہ کرچکے تھے جس کے دوران انہیں تعمیرات کے شعبہ میں پائے جانے والے بحران اور اس سیکٹر کی بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں
بھی آگاہ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے تعمیرات کے شعبہ کی بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی بنا پر بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز کا اعتماد بحال ہوا ہے اور اب اس شعبہ میں سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن
اب بھی آباد کی جانب سے پیش کی جانے والی چند تجاویز پر غور کرنے ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کا غریب افراد کے لیے پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی اور ایک کروڑ افراد کو ملازمتوں کی فراہمی کا خواب صرف کنسٹرکشن سیکٹر کی تجاویز پر
عملدرآمد ہی کی بنا پر پورا ہوسکتا ہے کیونکہ اس سیکٹر کے کام کرنے سے ایک سو سے زائد ذیلی صنعتوں میں کام شروع ہوجاتا ہے جس سے بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں۔حیف گوہر نے اس امر پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے
تحت جن بلڈرز اور ڈیویلپرز کے پروجیکٹس کی جو فہرست دی گئی ہے ان میں سے بیشتر پروجیکٹس پانچ سال قبل مکمل کیے جاچکے تھے اور انکے رہائشی یونٹس فروخت کیے جاچکے ہیں اس لیے اس قسم کے بلڈرز کے پروجیکٹس کے لیے بنکوں کی جانب سے قرضے فراہم نہیں کیے جائیں گے کیونکہ بنکوں کے قرضے ایک سال کے دوران مکمل کیے جانے والے پروجیکٹس ہی کو جاری ہوسکیں گے اور ان کے خریداروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔