اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )چیئرمین پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اسکندرخان نے کہا کہ گنے کی ریکوری مہینوں کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے، پندرہ دن پہلے مل چلانے کی وجہ سے چینی کی پیداوار میں تین لاکھ ٹن کی کمی آئے گی جو زیادہ بھی ہوسکتا ہے،کرشنگ کے وقت گنا میچور نہیں تھا اس لئے تین لاکھ ٹن کم چینی بنے گی، حکومت نے پتا نہیں کس لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا کہ
انہیں گنے کی ریکوری اچھی ملی، گنے کی قیمتیں ریکوری سے جوڑ دیں تو کوئی بھی نومبر میں مل چلانے کی حمایت نہیں کرے گا، ہمیں نہیں پتا کتنی چینی بنے گی کیونکہ ہم اس کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔نجی ٹی وی جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اسکندر خان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار پر سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعہ سبسڈی حاصل کرنے کا الزام درست نہیں ہے، ان کے پاس وافر چینی تھی تو انہوں نے ایکسپورٹ کردی، پچھلے دور میں 7ملین ٹن چینی کی پیداوار ہوئی تو ہم نے اضافی 2ملین ٹن چینی ایکسپورٹ کی اجازت مانگی مگر نہیں دی گئی، اس وقت ہمیں 1.2بلین ڈالرز مل سکتے تھے مگر جب عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہوگئی تو اسی حکومت نے 20 ارب روپے سبسڈی دے کر چینی ایکسپورٹ کی۔اسکندر خان نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں کاٹن کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے پاکستان میں کاٹن بیلٹ گنے کی کاشت میں منتقل ہوا، ایڈوائزری بورڈ مئی جون میں سیزن سے پہلے چینی امپورٹ کرلیتا تو قلت نہیں ہوتی، خیبرپختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی نہیں بن رہی، چار ارب روپے کا ٹیکس نہیں مل رہا اس پر خاموشی ہے۔