کراچی(این این آئی)ایک طرف پاکستان یورپی یونین میں بھارت کی جانب سے باسمتی چاول کو اپنی خصوصی مصنوعہ کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کے خلاف کیس لڑ رہا ہے تو دوسری انکشاف ہوا ہے کہ باسمتی چاول پاکستان میں ہی مقامی مصنوعہ کے طور پر رجسٹرڈ ہی نہیں۔باسمتی چاول پاکستان میں ہی مقامی مصنوعہ کے طور پر رجسٹرڈ نہ ہونے کا انکشاف ہونے پر
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے اناج کی رجسٹریشن کا مطالبہ کیا ہے ۔ رائس اپکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے موقف اپنایا کہ قانون میں کسی مصنوعہ کو بین الاقومی مارکیٹ میں رجسٹرڈ کروانے سے پہلے اسے ملک کے جیوگرافیکل انڈیکیشن کے تحت تحفظ دینا لازم ہے،لیکن رواں برس مارچ میں نافذ ہونے والے جیوگرافیکل انڈیکیشن رجسٹریشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2020 میں ایسے کوئی شق نہیں ۔رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق مارچ میں نافذ ہونے والے قانون کے قواعد بھی ابھی تک تشکیل نہیں دئیے جاسکے، جس کے نتیجے میں متعدد مقامی قابلِ برآمد مصنوعات دنیا میں کہیں بھی پاکستان کی جی آئی ٹیگنگ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں کروائی جاسکتیں۔یورپی یونین میں جاری کیس کے پیش نظر حکومت کو جلد از جلد جی آئی قوانین کو حتمی شکل دینا ہوگی۔بھارت بین الاقوامی سطح پر باسمتی چاول کی 65 فیصد تجارت کرتا ہے، وہیں بقیہ 35 فیصد باسمتی چاول پاکستان پیدا کرتا ہے جو ملک کی سالانہ 80 کروڑ سے ایک ارب ڈالر برآمدات کے برابر ہے۔پاکستان سالانہ 5 سے 7 لاکھ ٹن باسمتی چاول دنیا کے مختلف حصوں کو برآمد کرتا ہے جس میں سے 2 سے ڈھائی لاکھ ٹن یورپی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے، باسمتی چاول کو پاکستان کی مصنوعہ کے طور پر تحفظ دینے کا معاملہ اس وقت منظر عام پرآیا تھا جب بھارت نے رواں برس ستمبر میں یورپی یونین میں ایک درخواست جمع کروا کر اس اناج کی مکمل ملکیت کا دعوی کیا تھا۔پاکستان نے بھارتی دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ باسمتی چاول پاکستان اور بھارت کی مشترکہ پیداوار ہے۔