اسلام آباد (آئی این پی) چینی سفارتخانے کے مشن کے نائب سربراہ لی جان زاؤ نے گوادر اقتصادی فری زون کے منافع میں سے 91فیصد چینی کمپنیوں کے وصولی کے تاثر کو مسترد کر دیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ تاثر غلط فہمی کا نتیجہ ہے ابھی تک گوادر بندرگاہ زیر تعمیر ہے اس لئے کسی قسم کے منافع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہ بندرگاہ تعمیر کرو ، چلاؤ اور منتقل کرو (بی او ٹی ) کی بنیاد پر تعمیر ہورہی ہے،دریں اثنا چائنا کمپنی کے ایک اہلکار نے جو گوادر
پورٹ اور گوادر فری زون کی تعمیرمیں کام کررہا ہے ۔کہا ہے کہ کمپنی پاکستان کے مفادات کا مکمل طورپر خیال رکھتی ہے اور وہ اس سے حاصل ہونیوالے ریونیو سے ایک حصہ پاکستان کو دینے پر رضامندی ظاہر کر چکی ہے، اگرچہ بی او ٹی کے تحت تعمیر ہونیوالے منصوبوں میں اس قسم کی کوئی شرط نہیں رکھی جاتی ، چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی (سی او پی ایچ سی ) کے ایک ملازم نے کہا کہ کمپنی گوادر پورٹ کے ٹرن اوور میں سے نو فیصد اور گوادر فری زون کے ریونیو سے پندرہ فیصد پاکستان کو دینے پر رضا مند ہو چکی ہے،ملازم جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا وہ گذشتہ دنوں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو کے حوالے سے بعض اخبارات میں شائع ہونیوالی ان خبروں کی وضاحت کررہے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ چینی کمپنی گوادر بندرگاہ کے ریونیو کا 91فیصد حاصل کررہی ہے جبکہ گوادر پورٹ اتھارٹی کو آئندہ چالیس سال تک ریونیو کا صرف نو فیصد ملے گا ۔سی او پی ایچ سی کے اہلکار کا کہنا ہے کہ بی او ٹی منصوبوں کے بارے میں مسلمہ بین الاقوامی قوانین کے تحت منصوبہ تعمیر کرنے والی کمپنی اپنے ریونیو میں سے کچھ بھی دینے کی پابند نہیں ہے۔
انہوں نے پاکستانی حکام اور ذرائع ابلاغ سے کہا ہے کہ وہ غلط فہمیوں سے بچنے کیلئے ذرائع ابلاغ اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کریں ۔انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ اور گوادر فری زون کا انتظام سنبھالنے کے بعد کمپنی نے اس پر 270ملین ڈالر کی رقم اب تک خرچ کی ہے اور کمپنی اب تک نقصان اٹھا رہی ہے کیونکہ بنیادی ڈھانچے کی سڑکوں ، پانی اور بجلی سمیت دیگر سہولیات پاکستان نے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اب تک گوادر بندرگاہ اور گوادر فری زون کام نہیں کر سکی اور اس کے لئے ابھی تک بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت چینی کمپنیوں کو بہترین بیرونی ماحول فراہم کرے گی اور ترقی کے یہ کام مکمل کرنے میں بھرپور تعاون کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ پر تعمیراتی اورآپریشن کے کام کا معاہدہ پاکستانی حکومت اور سنگاپور کی ایک کمپنی کے درمیان طے پایا تھا لیکن آٹھ سال گزرنے کے باوجود سنگاپور کی کمپنی نے کسی قسم کی کوئی سرمایہ کاری نہیں کی جس کے نتیجے میں بندرگاہ ابھی تک تجارتی آپریشن شروع نہیں کر سکی ۔