کراچی(نیوزڈیسک)امریکی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری پاکستان کی معیشت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے جبکہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کی بڑی تعداد خود ٹیکس دیتی ہے نہ ہی ٹیکس اصلاحات میں دلچسپی رکھتی ہے۔ امریکی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان میں صرف 0.5 فیصد افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بھارت میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 2سے 3فیصد ہے جبکہ چین میں یہ تعداد 20 فیصد ہے۔اخبار کے مطابق ملک کے بڑے حصے میں ٹیکس ادائیگی کی شرح اتنی کم ہے کہ ٹیکس دفاتر بند کرکے حکومت بچت کر سکتی ہے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد فراڈ یا ٹیکس حکام کی ملی بھگت سے ٹیکس چوری کرتی ہے۔ ٹیکس چوری کا بڑا اور بدنام طریقہ زرعی اراضی کی خریداری ہے۔ زراعت کا شعبہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ زرعی اراضی خرید کر زراعت سے آمدن زیادہ ظاہر کی جاتی ہے جبکہ دوسرے کاروبار میں آمدن کم یا خسارہ ظاہر کر دیا جاتا ہے۔پارلیمنٹ میں زمینداروں کی اکثریت ہے جو زراعت پر ٹیکس کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے حال ہی میں اچھی خبریں آئیں لیکن آئی ایم ا یف حکام ٹیکس چوری اور فراڈ کو معیشت کیلئے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے آئی ایم ایف کے وفد کے سربراہ ہیرالڈ فنگر کا کہنا ہے کہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹس میں ٹیکس کی شرح صرف10 سے 11 فیصد ہے جو بہت کم ہے، بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔فیڈرل ریونیو بیورو سالانہ ایک لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لا رہا ہے جو قابل حصول ہدف کی نچلی ترین سطح ہے۔ یورپی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے حکمران طبقے کی ترجیحات میں ٹیکس وصولی شامل ہی نہیں اور وہ بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کرتے ہیں۔