جمعرات‬‮ ، 09 جنوری‬‮ 2025 

سول ملٹری تعلقات میں اہم واقعہ ہونے کا وقت آن پہنچا ہے یا پھر جلد آنے والا ہے

datetime 5  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دبئی (نیوزڈیسک)آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمعہ کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، یہ بات اب معمول کا حصہ بن چکی ہے، لیکن ہر دوسرے دن گھنٹوں تک جاری رہنے والی ملا قا تو ں سے سویلین ملٹری تعلقات کے حوالے سے اچھے اشارے نہیں مل رہے۔ ہر مرتبہ سرکاری پریس ریلیز کے اجراء سے ہمیں موضوع کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی پاک چین اقتصادی راہداری پر بات ہوئی تو کبھی پاک بھارت تعلقات پر، کبھی پاک امریکا دوروں یا پھر ضرب عضب پر تبادلہ خیال ہوا تو کبھی نیشنل ایکشن پلان پر۔ لیکن، جب یہ ملاقاتیں گھنٹوں تک جاری رہتی ہیں تو ممکنہ طور پر اس موقع پر تمام امور پر تبادلہ خیال ہو سکتا ہے، اور ہوتا بھی ہے۔ اور پھر کچھ دن بعد پھر اسی طرح کی ملاقاتیں ہوتی ہیں، پھر چاہے سرکاری ترجمان کتنی مرتبہ ہی یہ کیوں نہ کہہ دیں کہ سویلین اور ملٹری قیادت کا موقف یکساں ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ موقف کس کا ہوتا ہے لیکن جب وزیراعظم صاحب جنرل راحیل شریف کے بیانات کو دہراتے ہیں تو معاملات واضح ہو جاتے ہیں۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی کوئی نیا ایشو ہوتا ہے، جنرل راحیل کو وزیراعظم سے ملاقات کرکے یہ بتانا پڑتا ہے کہ فوج اس نئی پیشرفت سے کس طرح نمٹنا چاہتی ہے، چاہے یہ ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہو یا پھر پیپلز پارٹی یا پھر کوئی اور شخص یا تنظیم جس کا تعلق دہشت گردی، کرپشن یا دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت سے جڑا کوئی اور معاملہ۔ مبصرین کی رائے ہے کہ یہ انتظام سویلین سیٹ اپ کو پریشان کیے بغیر معاملات کو فوجی طرز سے چلانے کا طریقہ ہو سکتا ہے، یہ طریقہ کار عبوری معلوم ہوتا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں ممکنہ طور پر یہی بہترین طریقہ کار ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ یہ نازک توازن کسی ایک واقعہ یا پھر سویلین حکومت یا پھر کئی محاذوں پر کئی لڑائیاں لڑنے والی فوج کی کسی کارروائی کے نتیجے میں بگڑ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے کرپشن کے خلاف کارروائی میں تبدیل ہونے سے سویلینز خوش نظر نہیں آتے اور اس میں اہم شخصیات کی گرفتاریوں کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ پہلے ایم کیو ایم کی قیادت کی باری آئی، اس پر پیپلز پارٹی اور کسی حد تک مسلم لیگ (ن) نے زیادہ شور شرابہ نہیں کیا، بلکہ صورتحال کے مزے لیے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی باری آئی اور جب ڈاکٹر عاصم کا محاصرہ ہوا، یا پھر ان کی اپنی پارٹی کے کچھ لوگوں کی جانب سے ان کا محاصرہ کرایا گیا، اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو مخالفت ہونے لگی۔ اب انصار عباسی صاحب نے اسی اخبار میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وزیراعظم نے ایف آئی اے کو ہدایت دی ہے کہ وہ مسٹر گیلانی کو گرفتار نہ کرے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو نہ صرف وزیر اعظم کو عدالتی کارروائی میں مداخلت کا مرتکب سمجھا جائے گا بلکہ اس سے یہ بھی اشارہ ملے گا کہ ایسی مزید سیاسی گرفتاریوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس بات کا تو سب اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ دہشت گردوں اور مالی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں مصروف فوج اس صورتحال کیسے دیکھتی ہے، لیکن اس پر کوئی چیخ و پکار نہیں ہوگی اور آپریشن بالکل اسی طرح جاری رہے گا جیسا احتجاج کے باوجود ہو رہا ہے۔روزنامہ جنگ کے صحافی شاہین صہبائی کے مطابق ان میں سے ایک اشارہ اس وقت دیا گیا جب آصف علی زرداری کے مسلم لیگ (ن) کے خلاف سخت بیان کے بعد جب جنرل راحیل اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ آپریشن پر سیاسی دبائو بردا شت نہیں کیا جائے گا۔ تو اب بڑا سوال یہ ہے کہ اگر آصف زرداری کے نواز شریف کے خلاف دبائو کو برداشت نہیں کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے کرپٹ عناصر کو بچانے کیلئے نواز شریف کے دبائو کو کس طرح قبول کیا جائے گا؟ یہ واضح ہے کہ حکومت ایجنسیوں اور اس کے ماتحت اداروں کو کسی کے خلاف بھی کارروائی سے روک سکتی ہے لیکن کیا حکومت رینجرز اور فوج کو اس کے آپریشن سے روک سکتی ہے، اور کیا وہ انہیں ایسے شخص کی گرفتا ر ی سے روک سکتی ہے جس کے ملک سے فرار ہونے یا اس کی جانب سے ضروری ثبوت ضایع کرنے کا خطرہ موجود ہو۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سویلین ملٹری تعلقات میں کوئی بڑا واقعہ ہونے کا وقت آن پہنچا ہے یا پھر جلد ہی آنے والا ہے۔ نواز شریف حکومت نے بادل نخواستہ آپریشن ضربِ عضب اور کراچی آپریشن کے حوالے سے فوجی موقف کی حمایت کی (اگرچہ عوامی سطح پر حکومت کو اس کی ذمہ داری لینا ہے) لیکن سیاسی اور پارلیمانی کشتی نے پہلے ایم کیو ایم کی وجہ سے ہچکولے کھانا شروع کیے اور اس کے بعد اب پیپلز پارٹی کی صورت میں۔ ایسے میں نواز شریف حکومت کیلئے یہ انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو مزید جگہ فراہم کریں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ آپریشن کو روکنے کیلئے سیاسی حکومت کے پاس بمشکل ہی کوئی سیاسی سرمایہ یا اخلاقی یا انتظامی جرأ ت باقی رہ گئی ہے۔ اپیکس کمیٹیوں کے جدید طریقہ کار نے ایسا ہونے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ یہ صورتحال وزیراعظم نواز شر یف کی جانب سے نئے آرمی چیف کی نامزدگی تک آئندہ چند ماہ کیلئے جاری رہ سکتی ہے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اب اور اس وقت تک کے بیچ کئی اہم واقعات پیش آ سکتے ہیں جو شاید سیاست دانوں یا پھر سیاسی حکومتوں کیلئے پسندیدہ نہ ہوں۔



کالم



آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے


پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…