کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک انٹرویو میں روسی سفیر ڈینیئل گینش نے کہا ہے کہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے کہ مشرف صاحب 2003میں روس آئے تھے، خاص طور پر صدر زرداری نے دورہ کیا تھا مئی2011میں اور عمران خان نے فروری 2022میں دورہ کیا، گندم یا تین پر رعایت کے حوالے سے پاکستان سے رابطہ تھا اور اب بھی ہے تاہم عمران خان
کی حکومت کیساتھ کسی مفاہمتی یادداشت پر نہیں پہنچے تھے ، 2020ء میں ہماری وزارت زراعت اور پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکورٹی کے مابین ایک ایم او یو ہوا تھا،مجھے لگتا ہے کہ دورہ روس عمران خان کی حکومت ختم ہونے کی ایک وجہ ہے لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ایک حسن اتفا ق ہے کہ عمران خان اس دن وہاں موجود تھے جس دن جنگ شروع ہوئی، یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کیونکہ اگر عمران خان کو معلوم ہوتا تو وہ ضرور کوشش کرتے کہ اس دن نہ جائیں اور وہاں موجود نہ ہوں، ایکسپرٹ ہونے کے ناتے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہوں تو بالکل عمران خان کی حکومت کے جانے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کا دورہ روس بھی ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان اپنے ملک سے مخلص ہیں، وہ عین اس وقت وہاں موجود تھے جب جنگ چھڑی اور اس کے بعد یہاں حکومت کے جانے کے حوالے سے معاملات شروع ہوگئے۔یوکرین کے 1/5پر قابض ہوچکے ، کیف میں روزانہ 100فوجی ہلاک ہورہے ہیں ۔
جی ڈی پر گر گئی ، اگلے سال معیشت بحال کرلیں گے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہونگا۔ سستے تیل کی فراہمی کے عمران خان کے دعوئوں کے حوالے سے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ ہماری ایک بڑی ڈیل 2020میں ہوئی تھی، 2020میں ہماری وزارت زراعت اور پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکورٹی کے مابین ایک MOUبھی ہوا تھا یہ ایک حقیقت ہے۔
حالیہ کسی بھی بات چیت کے حوالے سے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہونگا یہ ہماری پالیسی ہے، صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہم زراعت اور توانائی کے حوالے سے پاکستان کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں، یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو کہ عمران خان کی حکومت کے دور میں رابطے میں تھے اور اب بھی رابطے میں ہیں۔
میں یہ تصدیق کرسکتا ہوں کہ ہم ایسے کسی MOUکے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے لیکن عمران خان نے یہ نہیں کہا ہم نے کوئی MOUکرلیا تھا، میں اس پر تبصرہ نہیں کرسکتا کہ کس قسم کی رعایات دینے کے حوالے سے بات چل رہی تھی کیونکہ یہ ایک پوشیدہ بات چیت تھی۔ پاکستانی وزارتوں میں کچھ لیکس کا سلسلہ بھی ہے جوکہ جاری شدہ بات چیت کو ظاہر کردیتی ہیں اور وہ ان بات چیت کے خلاف بھی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کون سی ہے، ہمیں تعلق قائم رکھنا ہے اور ہمیں پاکستانی کپڑا چاہئے جو کہ کل بھی چاہئے ہوگا۔