ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

قرضوں نے پاکستان کو بری طرح جکڑ لیا اگلے سال کتنی ادائیگیاں کرنا ہونگی؟اہم انکشافات

datetime 12  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)نئی حکومت یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال 23ـ2022 میں قرضوں کی ادائیگی پر 3 ہزار 950 ارب روپے خرچ کرے گی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق قرضوں کی خطیر ادائیگی نئے مالی سال کی ٹیکس آمدنی کے 56.4 فیصد ہوگی، حکومت کا مالی سال 23ـ2022 میں 7 ہزار 4 ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ہے۔

ڈیٹ سروسنگ 9 ہزار 3 ارب روپے کی کْل آمدنی کا 43.87 فیصد ہوگی جبکہ 9.5 کھرب کی مجموعی وصولی کا 41.6 فیصد ہوگی۔بجٹ دستاویز کے اعداد وشمار سے صورتحال کی سنگینی واضح ہوتی ہے، جس کے مطابق کْل ترقیاتی اخراجات 1 ہزار23 ارب روپے ہوں گے جو قرضوں کی ادائیگی سے بہت کم رقم ہے۔قرضوں میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے اور بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ قرضے لیے جارہے ہیں، تاہم بجٹ میں سب سے زیادہ رقم قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کی گئی ہے جسے ہر حکومت کے لیے کم کرنا اور ترقیاتی بجٹ کو بڑھانا ناممکن ہے۔اگرچہ جی ڈی پی اور آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن اس کے فائدے کوعوامی مفاد میں زیادہ ترقیاتی فنڈ کی صورت میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔پچھلے سال ماہرین معیشت نے توقع ظاہر کی تھی کہ 30 جون کوختم ہونے والے موجودہ مالی سال میں خالص آمدنی سے صرف قرضوں کی ادائیگی کی جاسکے گی جبکہ دفاع سمیت تمام اخراجات کے لیے قرضہ لینا پڑے گا۔

بجٹ دستاویز کے مطابق آمدنی، اخراجات، اثاثے اور واجبات غیر متوقع واقعات سے متاثر ہوسکتے جسے بجٹ کے اہداف میں شامل نہیں کیا گیا ہے، مزید مالیاتی صورتحال عالمی کلی معاشی صورتحال جیسا کہ اشیا کی قیمتیں اور شرح تبادلہ سے متاثر ہوسکتی ہے۔روپے کی گرتی قدر کی رفتار اور زری سخت اقدامات کے سبب خاصل آمدنی سے صرف قرضوں کی ادائیگی ہوسکے گی۔

مالی سال 2022 میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 17 فیصد کم ہوئی۔بجٹ دستاویز میں روپے کی قدر میں مزید ممکنہ کمی کا ذکر نہیں کیا گیا، تاہم ڈالر کی آمد میں کمی سے روپے کی قدر میں مزید کمی ہوسکتی ہے جس کے سبب روپے میں قرضوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

موجودہ بجٹ آمدنی، سبسڈی میں کمی اور مالیاتی نظم و ضبط کی آئی ایم ایف کی اہم شرائط کو پورا کرنے کے کوشش نظر آتا ہے، اس کے برخلاف پچھلے سال توسیعی بجٹ کے سبب صنعتی پیدوار میں اضافے سے جی ڈی پی کی نمو میں 5.97 فیصد کا اضافہ اور درآمدات میں بڑا اضافہ ہوا تھا۔

ٹاپ لائن ریسرچ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر محمد سہیل نے کہا کہ پاکستانی معیشت کے خدوخال اور بجٹ کے اہداف کے حصول کا بڑے پیمانے پر اںحصار اشیا کی عالمی قیمتوں پر ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ آمدنی کے ہدف میں 17 فیصد اضافہ کرکے 7 کھرب کا ہدف حاصل کرنا معیشت میں سست روی اور ایندھن کی فروخت سے کم آمدنی کی وجہ سے چیلنج ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایندھن پر سیلز ٹیکس، پیٹرولیم لیوی اور ڈیوٹیز سے کْل ٹیکس کا 22 فیصد وصول کیا جاتا ہے، حکومت مقامی صارفین سے قیمت میں 40 فیصد اضافے کے باوجود کوئی ٹیکس وصول نہیں کررہی ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…