اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کالم نگار ایس اے زاہد نے روزنامہ جنگ میں انکشافات سے بھرپور کالم تحریر کیا ہے ، ان کے مطابق نام نہاد ’’آزادی مارچ‘‘ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز کے بارے میں مقامی رہنماؤں کے دعوے محض دعوے ہی ثابت ہوئے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی قائدین خود اپنے لیے جائے پناہ تلاش کرتے رہے اور لانگ مارچ میں شرکت سے کنی کترا گئے۔ اسی طرح سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا اور دیگر بڑے شہروں کے اکثر قائدین ہی غائب رہے۔ ملتان سے البتہ شاہ محمود قریشی اور ان کے صاحب زادے نے حاضری لگوائی۔ جنوبی پنجاب سے بھی قائدین اور کارکنان غیر حاضر رہے۔راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے فیاض چوہان پچیس تیس کارکنان اور شیخ رشید احمد دس پندرہ لوگوں کے جم غفیر کے ساتھ اسلام آباد پہنچے۔ ذرائع کے مطابق ان دونوں رہنماؤں نے بھی دیگر بلا جلوس رہنماؤں کی طرح کنٹینر پر چڑھ کر قربت عمران خان حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن راولپنڈی کے ان دونوں رہنماؤں کو منع کردیا گیا۔ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ شیخ رشید نے پشاور جاکر عمران خان سے ملاقات اور میڈیا ٹاک میں ان کے ساتھ نظر آنے کے لیے کوشش کی لیکن عمران خان نے ان کو پشاور آنے سے ہی منع کردیا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنماؤں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کیلئے کوششیں کی ہیں لیکن ان کو فی الحال انکار کردیا گیا ہے۔
اس لئے وہ اب پی ٹی آئی میں ہی پرانی تنخواہ پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔لانگ مارچ کی ناکامی کا اندازہ تو عمران خان کو صوابی انٹرچینج پر پہنچ کر ہی ہوگیا تھا جب کے پی میں گزشتہ آٹھ نو سال سے حکومت میں ہونے اور وہاں کے پارٹی قائدین کے دعوئوں کے باوجود شرکاء کی تعداد پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان تھی۔ اس وقت بھی عمران خان نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق صوابی سے چلنے کے کچھ ہی دیر بعد عمران خان کو اطلاع ملی کہ اسلام آباد میں پارٹی کے صرف پندرہ سو سے دو ہزار کے لگ بھگ کارکنان موجود ہیں جو توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ اس لیے راستے کی بندش یا کوئی اور حیلہ بناکر اٹک پل کو عبور نہ کیا جائے تو بہتر ہےلیکن اس دوران سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے احکامات جاری کئے کہ پشاور سے آنے والے جلوس کو نہ روکا جائے۔
اس کے بعد اسلام آباد نہ پہنچنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ اور عمران خان کو بہ امر مجبوری اسلام آباد کی طرف مارچ کو جاری رکھنا پڑا۔ اس کے بعد اسلام آباد پہنچ کر جوکچھ ہوا اور جس طرح عمران خان کو واپس پشاور جانا پڑا اور ڈی چوک میں موجود کارکنان انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ یہ سب عمران خان کی مجبوری تھی۔
ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کی ناکامی اور پشاور پہنچنے کے دوسرے دن انہوں نے پارٹی قائدین کو پشاور طلب کرکے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق پارٹی قائدین کا کہنا ہے کہ ہم نے عمران خان کو اکثریتی رائے دی تھی کہ فی الحال لانگ مارچ کا اعلان نہ کیا جائے اس کےلیے سازگار حالات نہیں ہیں لیکن وہ نہ مانے اور مارچ کا اعلان کردیا۔
غیر جانبدار ذرائع نے بتایا ہے کہ بلاشبہ اکثر مواقع پر عمران خان کی ضد اور بعض لوگوں کے اکسانے پر غلط فیصلے کئے گئے جن پر پھر یوٹرن لینا پڑا۔ جس سے ان کی سبکی ہوئی۔ پارٹی قائدین میں بعض نے از خود راہ فرار اختیار کی اور ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو عمران خان کو لانگ مارچ کی ترغیب دیتے رہے۔ دوسروں کو میر جعفر اور میر صادق کہنے والے عمران خان کو اپنی ہی جماعت میں ایسے کرداروں کا سامنا ہے اب ان کو ایسے کرداروں کے خلاف اقدامات کرنے چاہئیں۔
ان خفیہ کرداروں سے تو وہ ارکان بہت بہتر ثابت ہوئے جنہوں نے منافقت کے بجائے سامنے کھڑے ہوکر نامعقول فیصلوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا جن کو منحرفین اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا گیا۔ ذرائع کے مطابق ان خفیہ کرداروں کی وجہ سے ہی اتنی بڑی تعداد میں اراکین پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی کو ہاتھ دھونے پڑے۔
جہانگیر خان ترین اور علیم خان جیسے وفاداروں کو ایسے ہی خفیہ کرداروں نے انحراف پر مجبور کیا اور وہ بڑی تعداد میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ الگ ہوئے۔ عمران خان کو اب سمجھ آنی چاہئے کہ سیاست اور حصول اقتدار کے لیے جذباتی باتوں، انتقام، مخالفین کی تعداد میں اضافہ کرنے اور دوسروں کی عقل کے سہارے نہیں بلکہ صبر و تحمل، بردباری، شائستگی اور برداشت و رواداری ہی بنیادی اصول ہیں۔
حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی پریشان ہے اور کوئی شک نہیں کہ اس سے دیگر اشیاء بالخصوص روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی مہنگی ہو جاتی ہیں لیکن سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر کئے گئے معاہدے پر عمل کرنا موجودہ حکومت کی مجبوری ہے۔ کیونکہ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیا جاتا تو ہم نہ صرف ان اربوں ڈالرز سے محروم ہو جائیں گے بلکہ وہ ممالک جو پاکستان کو امداد اور آسان شرائط پر قرضے دینا چاہتے ہیں وہ بھی نہیں مل سکیں گے۔
ایسی خطیر رقوم جو مذکورہ ممالک سے ملنی ہیں اسی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ بصورت دیگر ہمارا حال خدانخواشتہ سری لنکا جیسا ہو جائے گا۔ اس لیے عوام تھوڑا سا صبر و برداشت سے کام لیں بہت بہتری آنے والی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ عمران خان کے دعوے کو مدنظر رکھتے ہوئے روس سے تیل کے معاہدے کے بارے میں فوری دریافت کرے اوراگر روس سستا تیل دینے پر آمادہ ہو تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے لیکن شاید اس وقت عالمی پابندیوں کی وجہ سے روس سے تیل درآمد کرنا ممکن نہیں ہے۔ کسی کو بھی غلط بیانی کرکے قوم کو گمراہ نہیں کرنا چاہئے۔ افراتفری اور انتشار کی سیاست کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی البتہ ملک معاشی طور پر برباد ضرور ہوسکتا ہے۔