اسلام آباد (این این آئی) وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت کے قیام کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس (آج)پیر کو منعقد ہوگا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے 123 اراکین کی جانب سے استعفوں کے بعداسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو ایوان کو فعال کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے کیے جانے والے
سرکاری اعلان کے مطابق صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 54 (1) کے تحت ایوانِ زیریں کا اجلاس پیر کی شام 4 بجے بلانے کا سمن جاری کیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ اسپیکر کی جانب سے اجلاس کا آغاز پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق سے شروع کیے جانے کا امکان ہے جس کے لیے وہ اجلاس کے دوران مستعفی اراکین کو انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اپنے چیمبر میں بلائیں گے۔سابقہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو درجن اراکین قومی اسمبلی پہلے ہی اسپیکر سے رابطہ کر چکے ہیں جو اپنے مؤقف کی وضاحت کیلئے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں موجود ذرائع نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے جمع کروائے گئے اکثر استعفے ہاتھ سے تحریر نہیں کیے گئے ہیں اور تمام پر پارٹی کے لیٹر ہیڈ پر یکساں مواد لکھا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ سیکریٹریٹ کے عملے کو کچھ اراکین کے دستخط پر بھی شبہ ہے جو اسمبلی میں درج ان کے دستخط سے مختلف معلوم ہوتے ہیں۔بڑے پیمانے پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور 11 اپریل کو ایوان میں وزیر اعظم کے انتخاب سے قبل اس فیصلے کا اعلان پارٹی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کیا تھا۔اس دوران بطور قائم مقام اسپیکر خدمات سرانجام دینے والے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے فوری طور پر استعفے قبول کرتے ہوئے سیکریٹریٹ کو اعلامیہ جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔14 اپریل کو پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے ذریعے سیکریٹریٹ کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 123 اراکین قومی اسمبلی اپنے ہاتھوں سے اسپیکر کو استعفیٰ لکھ کر اپنی نشستوں سے مستعفی ہوچکے ہیں۔قومی اسمبلی کے سیکریٹری طاہر حسین کے دستخط شدہ نوٹی فکیشن میں اعلان کیا گیا تھا کہ استعفے جمع کرانے کے بعد ان کی نشستیں آئین کے آرٹیکل 64 (1) کے تحت خالی ہوگئی ہیں
جس کا اطلاق 11 اپریل سے ہوگا۔دوسری جانب راجا پرویز اشرف کو درپیش ایک اور چیلنج اپوزیشن کا تقرر ہے، پی ٹی آئی کی قیادت بضد ہے کہ وہ اسمبلی میں واپس نہیں آئی گی جس کے بعد ان کے پاس تقریباً دو درجن پی ٹی آئی منحرف اراکین میں سے اپوزیشن رہنما کو منتخب کرنے کے علاوہ کو دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق اس عہدے کے لیے نور عالم خان اور راجا ریاض
اہم امیدوار ہیں جو پہلے ہی اپنے ساتھیوں کے دستخط کے ساتھ اسپیکر کو درخواست جمع کروا چکے ہیں۔پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں اور وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد نامکمل کمیٹیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ تقریباً غیر فعال ہوگئی ہے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے تمام پینلز کی تشکیل کے تجزیے کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیاں اب نامکمل ہیں اور 60 فیصد سے
زائد سربراہان کے بغیر ہیں یا تو پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفے یا وفاقی کابینہ میں ان کے چیئرمینز کی شمولیت کی وجہ سے نامکمل ہیں۔سربراہ کے بغیر اہم کمیٹیوں میں سب سے طاقتور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ساتھ ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری اور کشمیر سے متعلق پارلیمانی کمیٹیاں بھی شامل ہیں۔مزید برآں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی خزانہ اور محصولات سے متعلق قائمہ کمیٹیوں کے
سربراہ بھی موجود نہیں ہیں، اس وقت حکومت کے پاس مالی سال 23-2022 کا وفاقی بجٹ پیش کرنے میں صرف ایک ماہ رہ گیا ہے۔دونوں ایوانوں کی کمیٹیوں کو پارلیمنٹ کی توسیع کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ تمام قانون سازی اور اہم مسائل جو ایوانوں میں آتے ہیں ان کو مکمل بحث کے لیے متعلقہ کمیٹیوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔قواعد کے تحت کمیٹیوں کو 60 دنوں کے اندر اپنی رپورٹس کسی
بھی ایوان میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد دونوں ایوانوں کے اراکین بل پر ووٹ دیتے ہیں۔قائمہ کمیٹیاں کسی بھی ایوان میں پارٹی کی پوزیشن کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں اور کیونکہ پی ٹی آئی حکمران جماعت تھی، اس لیے قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیوں میں اس کی نمائندگی سب سے زیادہ تھی۔پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کے بعد قومی اسمبلی کی دیگر کمیٹیاں جو چیئرمینز کے
بغیر ہیں ان میں ہوا بازی، داخلہ، موسمیاتی تبدیلی، دفاع، اطلاعات و نشریات، اقتصادی امور، توانائی، خارجہ امور، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن، منصوبہ بندی، ریاستیں اور سرحدی علاقے سے متعلق کمیٹیاں شامل ہیں۔30 اپریل کو اسپیکر نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے اپنی نامزدگیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کہا گیا تھا تاہم موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کی جانب سے کاغذات نامزدگی بھیجے جانے کا امکان نہیں ہے۔