لاہور( این این آئی)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے کہا ہے کہ مسجد نبوی ؐ کے واقعہ پر درج ہونے والے مقدمات میں حکومت کسی طرح کی مداخلت نہیں کر ے گی ،ہم اس معاملے میں قطعی طور پر اس حق میں نہیں کہ حکومت کسی قانونی کارروائی کا حصہ بنے لیکن اگر لوگ اپنے جذبات کو قانونی طریقے آگے بڑھانا چاہتے ہیںتو حکومت کو اسے نہیں روکنا چاہیے کیونکہ جب کوئی غیر قانونی راستہ اپنائے گا
تویہ کسی بھی حکومت کے لئے جائز کام نہیں ہے کہ وہ اس طرح کاماحول پیدا کرے کہ لوگ قانون ہاتھ میں لیںجبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا ہے کہ مقدمات میں توہین رسالت کی دفعات شامل نہیں ،یہ قانون موجود ہے کہ اگر کوئی پاکستانی شہری پاکستان کے باہر ایسا کوئی عمل کرتاہے جوپاکستانی قوانین کے مطابق جرم ہے توپاکستان میں کہیںبھی اس کے خلاف پراسیکیوشن کی جا سکتی ہے ،عدالتیں ان مقدمات کے اخرا ج کا حکم دیں،ضمانتیں دیں یا تفتیش کے حوالے سے حکم دیں ہماری سر آنکھوں پر ہے ، ہماری جو ڈیوٹی ہے ہم اس سے روگردانی نہیںکریں گے اورسارا عمل قانون اور قانون کی منشاء کے مطابق ہوگا۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس کی ۔رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ مسجد نبوی ؐمیں جو انتہائی دلخراش قابل افسوس اور قابل مذمت واقعہ پیش آیا ہے اس واقعہ کے مضمرات ہیں جو نہ صرف یہاں پاکستان میں ٹریس ہوئے بلکہ برطانیہ تک اس کی ثبوت ملے ہیں ،یہاں پاکستان میں کچھ لوگوں کوابھارا گیا ، اسلام آبادمیں اس کی ترغیب دی گئی اس کے بعد ایک صاحب گروہ لے کر وہاں پہنچے اوروہاں سے کچھ لوگوں کو ساتھ شامل کیا ،اس کے بعد برطانیہ سے ایک گروہ وہاں پر پہنچااور پھر ان لوگوں نے وہ عمل کیا جس عمل پوری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان میںہر کسی کو انتہائی دکھ اور افسوس ہوا ۔
انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال کاقابل مذمت پہلو یہ ہے کہ پریس کانفرنس کر کے ،نجی میٹنگز میں یہ باتیں کرتے رہے ہیں کہ وہاں پر یہ ہوگا بلکہ یہاں تک خبر دیتے رہے دیکھیں ان کے ساتھ کل وہاں کیا ہوتا ہے ، ہم نے ان چیزوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا کہ سیاسی طو رپر باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ سیاسی عناد اور سیاست میں اسے مقدس مقامات تک لے کر چلا جائے ۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں نے جذباتی ہو کر اس کے اوپر
دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور ردعمل سامنے آیا جس کی بنیاد پر لوگوںنے قانون کے تحت کارروائی کرنے کے لئے پولیس اوردوسرے اداروں سے رابطہ کیا ۔انہوںنے کہا کہ اس میں حکومت کا جو موقف ہے کہ ہم اس معاملے میں قطعی طور پر اس حق میں نہیں ہیں کہ حکومت کسی قانونی کارروائی کا حصہ بنے لیکن اگر لوگ اپنے جذبات کو قانونی طریقے آگے بڑھانا چاہتے ہیںتو حکومت کو اسے نہیں روکنا چاہیے ،لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے جذبات
کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے ۔قانونی راستہ روکنے پر کوئی غیر قانونی راستہ اپنائے گا تویہ کسی بھی حکومت کے لئے جائز کام نہیں ہے کہ وہ اس طرح کاماحول پیدا کرے کہ لوگ قانون ہاتھ میں لیں۔ انہوںنے کہاکہ ہماری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے اورہمارا موقف رہا کہ اگر خاص طور کسی کے عقیدے اوراحساسات کو نقصان پہنچے یا اس کو تلخی ہو تو وہ قانونی راستہ اختیار کرے ۔ جو لوگ سامنے آئے ہیںان کے تحفظات ہیںجو قانون کے مطابق
درست ہیں۔انہوںنے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ واقعہ وہاں پر ہوا اور مقدمہ یہاںکیسے درج ہو گیا ۔انہوںنے کہا کہ لوگوں نے جو درخواستیں دی ہیں اس کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی ہیںاور ہماری کوشش ہے کہ اس کی تحقیقات میرٹ پر ہوں ۔وزیر اعظم کی جانب سے اورحکومت کی جانب سے واضح ہدایات کی گئی ہیں ان درخواستوں سے قانون کے مطابق نمٹیں، اگر اس پر کوئی کارروائی بنتی ہے تو قانون اپنا راستہ لے گا اگر کسی
کے خلاف کارروائی نہیں بنتی تو کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ جن لوگوںپر الزام ہے کہ انہوںنے اس عمل میں منصوبہ بندی کر کے بھیجا ہے اسے بھی تفتیشی ادارے دیکھیں گے ۔ انہوںنے کہا کہ جس جماعت پر الزام ہے اس کی جانب سے اس کی مذمت بھی نہیں کی گئی اور ان کی طرف یہ نہیں کہا گیا کہ یہ اچھانہیں تھا یا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک صاحب جو گرفتارہوئے ہیں ان کے ثبوت یہ ہیں کہ وہ موقع
پر کرانے کے بعدفرما رہے تھے ہم نے انہیںجمعہ بھی نہیںپڑھنے دیا،تراویح پڑھنے نہیں آئے اورہوٹل میں چھپے ہیں ہم نے انہیںیہاں آنے سے روکا ہے ، اللہ کے مہمانوں کو روکنے کا یہ عمل قطعی طو رپر قابل قبول نہیں ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران بھی مدینہ کی ریاست اوراسلام کو مختلف حوالوں سے ذاتی مقاصداور ذاتی ایجنڈے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور اب بھی اس سے باز نہیں آرہے ۔ بر صغیر
کی تاریخ میںآج تک چاند رات پر کسی نے احتجاج نہیںکیا، رمضان المبارک میں اگر پروگرام شیڈول ہوتے تو انہیں ملتوی کر دیا جاتا ہے لیکن یہ جلسوں اور احتجاج کی کال دے رہے ہیں، اب کہہ رہے ہیں کہ چاند رات کو باہر نکلیں اور احتجاج کریں، چاندرات کو لوگ معافی تلافی کرتے ہیں عید دیتے ہیں آپ نے کیا کام شرو ع کر دیا ہے ،آپ کس آزادی کی بات کر رہے ہیںہمیں آزاد ہوئے تو 74سال ہو گئے ہیںآپ پاکستان کو دوبارہ 1940ء میں لے کر جانا
چاہتے ہو۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے میں بالکل میرٹ پر چلے گی اور قانون کی پیروی کرے گی ،اگر کسی کے خلاف کچھ ثابت ہوگا تو قانون اپنا راستہ لے گا اورنہیں ہوگا تو نہیںلے گا،حکومت مداخلت کر رہی ہے اورنہ کرے گی ، اگرکوئی آدمی قانونی راستہ بناتا ہے تو حکومت اسے جائز نہیں سمجھتی کہ کوئی قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے کسی اور طرف جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاسی مخالفین اس قسم کی گفتگو کرتے
ہیں کہ یہ گھروں سے نہیںنکلیں گے ، انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ان کی پونے چار سال حکومت رہی ، یہ جھوٹے مقدمات بنا کر ہمیں جیلوں میں بند کرتے رہے ہیں ،اس کے باوجود ہم خوفزدہ ہوئے اور نہ موقف سے دائیں بائیں ہوئے ، یہ باتیں جانے دیں کہ آپ کسی کو گھر سے نہیں نکلنے دیں گے ،اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا گھر سے نکلنا بھی مشکل ہوجائے گا ، سیاسی اختلاف کو سیاسی اختلاف کی حدتک رہنے دیں ، آپ سیاسی اختلاف کو
روضہ رسول ؐتک لے گئے ہیں آپ ان چیزوں سے باز آئیں ، سیاسی اختلافات کو سیاست کے میدان کے اندررہنے دیں ۔رانا ثنا اللہ خان ین کہا کہ جمہوری روایات کی اس بار عدالت عظمی اور عدالت عالیہ نے بھی کی حفاظت کی ہے اوریہ بہت کوش آئند ہے ۔ عمران خان پہلے کہہ رہے تھے کہ تیس لاکھ لوگ آئیں گے اور اب دس لاکھ کم کر کے بیس لاکھ کر دیا ہے یہ ہزاربار ہ سو پر آ جائیںگے ۔یہ ملک میں انارکی چاہتے ہیں، لووں کو گمراہی کا سبق دے
رہے ہیں،اب کہہ رہے ہیں کہ چاند رات کو نکلیں ہنگامہ آرائی کریں گے ۔27ویں کی شب مبارک رات ہے لیکن انہوں نے اس دن بھی اپنا سیاسی ایجنڈا سامنے رکھا ۔ مذہب ، ایمان اور دین کا سیاسی انداز سے استعمال انتہائی خطرناک ہے اس کو روکا جانا چاہیے ، اسے روکنا صرف مخالف سیاستدانوں یا حکومت کا کام نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کا کام ہے ۔ یہ شخص پورے معاشرے کو گمراہی اور انارکی کی جانب دھکیل رہا ہے اگر خدانخواستہ اس
کو کامیابی ہوتی ہے تو پورے ملک قوم کیلئے المیہ ہوگا ،ہم پوری کوشش کریں گے کہ قوم ہماراساتھ دے گی اور شیطانی ڈیزائن کو اس کوہر طرح سے روکا جائے۔ انہوںنے کہاکہ مسجد نبویؐ میں جو اقعہ ہوا اس میں گرفتاریاں ہمارا کام نہیں ہے ۔ جو تفتیشی ٹیمیں ہیںمیڈیا بھی ان پر نظر رکھے اگر تفتیش کے نتیجے میں ادارے کسی کو گرفتار کرنا چاہیں تو گرفتار کریں ۔ یہ اپنی حکومت میں پونے چار سال یہ کرتے ہیں رہے ہیں کہ میں اس کو نہیں
چھوڑوںگا لیکن ہم کہتے ہیں قانون اپنا راستہ بنائے گا۔انہوںنے کہا کہ اس حوالے سے ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کے اوپر ایف آئی آر ز نہیں ہونی چاہیے لیکن ایک نقطہ اورنظر یہ ہے اس میں بہت زیادہ جذبات ہیں کارروائی ہونی چاہیے ،ایسے لوگ جو قانونی راستہ اختیار کرنا چاہتے قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ یہ لوگوں کا حق ہے ۔ ہم یہ ضرور اہتمام کریںگے کہ زور دیں گے کوئی بندہ قانون ہاتھ میںنہ لے ، ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اس
معاملے پراحتجاج کریں ،عدالتیں آزاد ہیںوہ سب کچھ دیکھیں گی۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب یہ معاملہ ہوا ہے وزیر اعظم نے ہدایت کی جو کریمنل کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں اس کی بات بابت قانونی صورتحال صورتحال کیا ہے ۔مقدمات کا اندراج صوبائی معاملہ ہے ،اگر اسلام آباد کی حدود میں کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو اسے وزارت داخلہ دیکھے گی ،حکومت کا اس پر بیان آنا ضروری تھا اور وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ اس معاملے
کو دیکھیں۔ یہ واقعہ بلا شبہ افسوسناک بلکہ شرمناک ہے جہاں پر سب سے مقدس مقام ہے حرمین شریفین ،روضہ رسول کی حدود میں یہ واقعہ ہوا ۔رہی بات اس میں کسی کو قانونی چارہ جوئی کا حق ہے یا نہیں ہے جب صبح پرچہ درج ہوا تو سب سے پہلے لیگل صورتحال دیکھی ،تعزیرات پاکستان، پاکستان کے پینل کوڈ کے ساتھ ساتھ ضابطہ فوجداری میں دونوں یہ شقیں رکھی گئی ہیں دفعہ 3اور4پاکستان پینل کوڈ ، ضابطہ فوجداری کی
دفعہ180سے188کے درمیان ہے کہ اگر کوئی پاکستانی شہری پاکستان کے باہر بھی ایسا کوئی عمل کرتاہے جوپاکستانی قوانین کے مطابق جرم ہے توپاکستان میں کہیںبھی اس کے خلاف پراسیکیوشن کی جا سکتی ہے اور اس حوالے سے شبہ دور کر لیا گیا ۔ اس کے بعد پولیس سے رپورٹ مانگی کہ جو واقعہ حرمین شریفین میں ہوا اس کی بات ایف آئی آر ز درج ہو گئی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اس پر قانون رائے لے کر مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ ایک حلقے
کی جانب سے شور مچا دیا گیا کہ خدانخواستہ کے مطابق توہین رسالت 295سی کے تحت مقدمات درج کر لئے گئے ہیں، کسی ایسی دفعہ کا اطلاق نہیں ہے جوتوہین رسالت کے زمرے میں آتے ہیں،یہ مقدمات 295اور296کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں جو کہ مذہبی مقامات پر ہلڑ بازی کرنا، کسی شخص کو اس کی مذہبی عبادات کے حوالے سے روکنا اور جو مذہبی جگہ ہے اس کے تقدس کے حوالے سے کوئی ایسا کام کرنا وہاں پر موجود یااس
مذہب یا مسلک سے تعلق رکھنے والوںکے دل دکھیںیہ سارے قوانین آج سے سو ،سوا سو سال پہلے کے بنے ہوئے ہیں اس کے لئے یہ تخصیص بھی نہیں ہے کہ یہ مساجد کیلئے قوانین ہیں،یہ قوانین بنائے گئے اس وقت بھی چار پانچ اقوام بستی تھیں اور ان کے اپنے اپنے مذہبی شعائر ہیں ، ان قو انین کا اطلاق گردوارہ ، مساجد ،چرچ ، مندر کے لئے بھی ہے ، یہ مقدمات پہلی دفعہ درج نہیں ہوئے بلکہ پہلے بھی درج ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حساس معاملہ
ہوتا ہے ، ایک صورت یہ ہے کہ حکومت چپ کر بیٹھے اور یہ کہہ دیا جائے کہ تھانوںمیں کوئی مقدمہ درج نہ کیا جائے اورلوگوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس بات کا حساب خود لیں ، ریاست میںایسا نہیں ہوتا ۔ ایک درخواست آئی جس میں مقدمہ قابل دست اندازی پولیس جرائم ہے ۔ حکومت کی ایک ضرور ہدایت ہے کہ اس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی تفتیش میرٹ پر ہو گی، اگر شہادتیں ملیں گی فرانزک ثبوت ہیں واقعاتی شہادت ہیں تو میرٹ پر
یکسو کیا جائے گا ، اس صورت میں وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کومناسب حکم جاری کرے گی کہ کسی قسم کا غیر قانونی یا ضابطے سے ہٹ کر سلوک نہیں ہونا چاہیے اورہم اسے یقینی بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ہر طرح کے لوگ بستے ہیں جو مذہبی حوالے سے سخت بھی ہوتے ہیں اور روش خیال ہیں،حکومت کا کام توازن رکھناہے ،یکساں اپروچ ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ تنقید کر رہے تھے کہ قانون کا غلط استعمال
کیا گیا ہے ۔ میرا خود تعلق وکالت کے پیشے سے ہے اور میںآخری شخص ہوں گااگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو میں چپ کر بیٹھوں گا۔ قانون نے اپنا راستہ لینا ہے، یہ توہین رسالت کے مقدمات نہیں ہیں ،تفتیش کے مراحل میں قانون نے راستہ لینا ہے ، حکومت مداخلت نہیں کر سکتی، عدالتیں ان مقدمات کے اخرا ج کا حکم دیں،ضمانتیں دیں یا تفتیش کے حوالے سے حکم دیں ہماری سر آنکھوں پر ہے ، ہماری جو ڈیوٹی ہے ہم اس سے
روگردانی نہیںکریں گے اورسارا عمل قانون اور قانون کی منشاء کے مطابق ہوگا۔انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب یک حلف کے حوالے سے کہا کہ دو رکنی بنچ نے پانچ رکنی بنچ کی سفارش کی ہے ۔ جب آئین شکنی ہو گی آئین سے رو گردانی ہو گی قانون کی بات نہیں سنی جائے گی اورروایات سے ہٹا جائے گا اور ہٹ دھرمی دکھائی جائے گی تو لوگوں کے پاس عدالت جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، عدالت کے سامنے یہ پہلی دفعہ معاملہ ہے جسے اس نے
سلجھانے کی کوشش کی ، پہلے صدر مملکت کو رائے دی ، پھر گورنر کو ایڈوائس کی گئی اور کہا گیا کہ آپ آئین کا مذاق نہ اڑائیں لیکن جب تیسری دفعہ معاملہ عدالت میں آیا اور اس نے دیکھا کہ عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑایا جارہا ہے ، مذاق اڑایاجارہا ہے تو اس نے آرٹیکل 199کے تحت حکم جاری کیا ، یوسف رضا گیلانی کو چٹھی نہ لکھنے پر دو منٹ کی سزا دی گئی او ر وہ آئینی عہدے سے ہٹ گئے تھے ، یہ تو اسمبلیاں توڑنے کی حد تک جارہے تھے۔یہ قابل ستائش ہے کہ ہمارے ہاںعدالتی نظام موجود ہے آزادانہ عدالتیں ہیں ار انہوںنے قانون کا راستہ لیا ہے ۔