جمعرات‬‮ ، 14 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شہباز شریف کے خلاف 4 ہزار 3 سو دستاویزات بطور ثبوت موجود ہیں،اہم انکشافات

datetime 17  دسمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی) وزیر اعظم کے مشیربرائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے سپیشل جج سنٹرل کی عدالت میں جمع کرائے گئے چالان میں شہباز شریف نہ صرف منی لانڈرنگ کے مرتکب پائے گئے ہیں بلکہ وہ گروہ کے سرغنہ اورماسٹرمائنڈبھی ثابت ہوئے ہیں،مطالبہ ہے کہ کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے ، مقدمات کی سماعت کو سامنے لانے کیلئے لائیو کوریج کرائی جائے

تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے عدالتوںمیںکیا ہو رہا ہے ،ایف آئی اے نے ابتدائی چالان میں 4 ہزار 300 دستاویزات بطور ثبوت ساتھ لگائی ہیں جبکہ 100گواہان کی فہرست ہے ،شہباز شریف خاندان نے 5ہزار سے 30ہزار تنخواہ والے چھوٹے ملازمین کے نام پر 28بے نامی اکائونٹس کھلوائے گئے جن کے ذریعے 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ،یہاں بھی حدیبیہ پیپر ملز کی طرح واردات کی گئی اور دوسروں کی شناخت استعمال کر کے اکائونٹس کھلوا کر منی لانڈرنگ کی گئی ،5ملین روپے پارٹی فنڈ کی رقم چپڑاسی کے اکائونٹ میں کیوں منتقل ہوئی ؟ ،سلمان شہبازاور علی عمران کی واپسی کیلئے برطانیہ سے ایم او یوسائن کرنے والا مرحلہ آنا ہے اورہمیں پوری امید ہے ہم قانونی معاملات کوپورا کریں گے اورمزید پیشرفت ہو گی ،نواز شریف کا کیس ان سے مختلف ہے ،وزٹ کی 185د ن کی مدت گزار چکے ہیں اور برطانیہ سے خط و کتابت کی وجہ سے ان کی دوسری بار توسیع کی درخواست مستردہو گئی ہے ،ان کے پاس ایک اوراپیل ہے جومسترد ہونے پر انہیںبرطانیہ چھوڑناپڑے گا ،یہ بھی سنا ہے نوازشریف خود واپس آرہے ہیں خوشی ہے وہ آجائیںکیونکہ کوٹ لکھپت جیل میںان کا بیتابی سے انتظار ہو رہاہے۔90شاہراہ قائد اعظم پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف بے نامی اکائونٹس ،

منی لانڈرنگ او رکرپشن کے کیس کا سپیشل جج سنٹرل کے سامنے چالان پیش کر دیا گیا ،یہ حتمی چالان نہیں ہے کیونکہ سلمان شہباز ملک سے باہر ہیں اوروہ اشتہاری ہیں ، کچھ سے ابھی تفتیش جاری ہے اس لئے اضافی چالان داخل کیا جا سکتاہے ۔ لیکن اب تک جو چالان جمع کرایاگیا ہے اس پر پراسیکیوشن شروع ہو سکتی ہے ۔انہوں نے

کہاکہ چالان میں حیران کن اورغور طلب باتیں سامنے آئی ہیں کہ کس طرح حکومت میں عہدے سنبھالتے ہوئے ریگولیٹرز کو ناکاہ بنا دیا گیا اور ایسے جرائم کئے گئے جس کی پاداش میں پاکستان آج ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میںہے ۔ سپیشل جج سنٹرل کے رو برو ٹھوس شواہدکے ساتھ 67صفحات کاچالان جمع کرایاگیا ہے ۔ اس کے

ساتھ 4300دستاویزات کے والیمز کوبطور ثبوت ساتھ جمع کرایا گیا ہے جبکہ100سے زائد گواہان کی بھی فہرست ہے جواس کیس سے متعلقہ اور انتہائی اہم ہیں ۔نیب کا کیس ایف آئی اے سے الگ ہے۔تفتیش میںنہ صرف سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ گروہ کے سر غنہ اور ماسٹرمائنڈبھی ثابت ہوئے

ہیں ۔ حدیبیہ پیپرز ملز میںجو طریقہ واردات اپنایا گیاوہ اس بے نامی اکائونٹس کے کیس میںبھی نظر آیا ہے کہ کس طرح دوسروں کی دستاویزات استعمال کر کے ان کے نام پر اکائونٹس کھلوائے گئے اور انہیں کرپشن ،منی لانڈرنگ کی ٹرانزیکشن کے لئے استعمال کیا گیا ۔ انہوںنے کہاکہ چالان کے مطابق شہباز شریف ،ان کے صاحبزادوں حمزہ

شہباز ،سلمان شہباز نے دیگر ملزنا ن کے ساتھ مل کر 28خفیہ بے نامی اکائونٹس کے ذریعے 16 ارب کی ٹرانزیکشنز کی جو منی لانڈرنگ اورکرپشن کے زمرے میں آتے ہیں ۔یہ 28بے نامی اکائونٹس 2008ء 2018ء کے درمیان آپریٹ ہوئے اور اس عرصے میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ 28بے نامی اکائونٹس رمضان

شوگر ملز کے چھوٹے ملازمین کے ناموں پرکھلوائے گئے ۔قانون کے مطابق جب آپ کوئی اکائونٹ کھولتے ہیں تو اس کیلئے آپ کو اپناپروفیشن ،تنخواہ یا ذرائع آمدن کا کوئی سرٹیفکیٹ بھی بتانا ہوتا ہے ، بینک منیجر کی ڈیوٹی ہے کہ وہ دیکھے جس کا اکائونٹ ہے اس کی ماہانہ آمدن کتنی ہے اور اس کے ذرائع کے آمدن کیا ہیں۔ جب اس اکائونٹ

میں آمدن سے زیادہ پیسہ آئیں تو بینک کے منیجر کی ڈیوٹی ہے کہ وہ اس کی جانچ پڑتا ل کرے اور اس کی رپورٹ بھی کرے ۔شہباز شریف کے ملازمین ساڑھے 5ہزار سے 30ہزار تک تنخواہیں وصول کر رہے تھے لیکن ان کے بینک اکائونٹس میں اربوں روپے آرہے ہیں۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے جوتحقیقات کی ہیں اس کے مطابق 28اکائونٹس

میں17ہزار ٹرانزیکشنزہوئیںاسی وجہ سے چالان کو مکمل کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگا کیونکہ بینکوںکی ملٹی پل برانچز تھیں جو لاہور کے علاوہ چنیوٹ میں تھیں۔ ان 17ہزار ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال اور اور ان کی تحقیقات کی گئی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ شہباز شریف خاندان نے تو ایف آئی اے سے کوئی تعاون کیا اور نہ کوئی خاطرخواہ

جواب دیا ۔ شریف خاندان یا ان کے ترجمان یہ بتاتے ہیں کہ یہ ٹرانزیکشنز چینی کے کے کاروبار سے متعلق ہیں لیکن چالان کے یہ سامنے آیا ہے کہ ایک بھی ٹرانزیکشن کاتعلق چینی کے کے کاروبار سے نہیں ۔انہوںنے کہا کہ چالان میں سب کچھ ہے کہ کون کون لوگ پیسے جمع کراتے رہے ،یہ کیسے جمع ہوئے اوران کا کیا تعلق ہو سکتا

ہے، ویسے بھی بے نامی اکائونٹ کھولنا ایک جرم ہے ، ہم انہیں یہ بھی رعایت دینے کے لئے تیار ہیں کہ انہوںنے انڈر انوائسنگ کیلئے ایسا کیا ہوگا لیکن تحقیقات میں پتہ چلتا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے بلکہ ٹھوس شواہد یہ ہے کہ کک بیکس اور کمیشن وصول کئے گئے اور ان کی مد میں ٹرانزیکشنزکی گئیں ۔انہوںنے کہاکہ گلزاراحمد خان جو

کہ رمضان شوگر ملزمیںچپڑاسی تھا اس کے اکائونٹ میں 5ملین کا چیک جمع کرا یاگیا ،یہ چیک اورنگزیب بٹ کے ساتھ جڑاہوا ہے اور اس کا شہباز شریف سے براہ راست تعلق ہے ۔چالان میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ شہباز شریف اس گروہ کا سر غنہ تھا ۔ اورنگزیب بٹ کو بیوٹیفکیشن کمیٹی کاسربراہ بنا دیا جاتا ہے اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے

پی ایس ٹو جو مشہور شخص عطاتارڑ ہیں ان کے نام سے لیٹر جاری ہوتا ہے ، اورنگزیب بٹ کو سربراہ کرڈی سی اور ٹی ایم او کو اس کے ماتحت کیا جاتا ہے ۔اورنگزیب بٹ اس کو خود تسلیم کر چکا ہے اوروہ مان رہا ہے کہ اس نے شہباز شریف کو پارٹی فنڈ میں پیسے دئیے تھے ،پھر گلزار احمد کے اکائونٹ میں یہ پیسے کیسے چلے جاتے

ہیں؟،گلزار احمد اکائونٹ سے پیسے نکلواتاہے ،مسرور انور جواس کیس میںملزم ہے او رنیب کے کیس میں بھی ملزم ہے شہبازشریف خاندان کا ذاتی کیشئر یہاں سے پیسے کیش نکلواتا ہے اور وہ کیش شہباز شریف کے اکائونٹ میں جمع کراتا ہے ، پارٹی فنڈ کے نام پر پیسے ان کے اکائونٹ میں جاتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ گلزار احمد 2015ء

میں فوت ہو جاتاہے لیکن اس کا اکائونٹ2017ء تک چلتا رہتا ہے اورمسرور انورکیش نکلواتاہے اور کوئی اس سے سوال نہیں پوچھتا ۔یہاںبھی وہی ہو رہا تھا جو سندھ میںجعلی اکائونٹس کے ذریعے ہو رہا تھا ۔ سندھ والے کی ساکھ زیادہ خراب ہے یہاں کاخاد م اعلیٰ منی لانڈرنگ کاآلہ نکلا ۔شہزاداکبر نے کہاکہ گلزاراحمد کی ماہانہ 12ہزار روپے

تھی، ملک مقصود رمضان شوگر میں چپڑاسی تھا اور اس کی تنخواہ 25ہزار تنخواہ تھی اوراس کے بینک اکائونٹ کے ساتھ تنخواہ کاثبوت لگاہوا ہے لیکن اس کے سات اکائونٹس ہیں اور2015سے 2018ء تک ان میں3.7ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے ،اسلم شریف گروپ میںکیشئر ہے اور اس کی ماہانہ تنخواہ 10ہزار ہے لیکن اس کے

دواکائونٹس کھولے گئے اور ان میں 1.7ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے ، کلرک اظہر عباس 2001ء میں9ہزار پرملازم ہوتا ہے اس کے دو اکائونٹس کھول کر1.6ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی، غلام شبرقریشی سٹور کیپر ہے او راس کے نام پر کھولے گئے اکائونٹس میں1.5ارب کی ٹرانزیکشنز ہوئیں،خضر حیات

نذراسسٹنٹ ہے جس کی تنخواہ21500ہے اس کے اکائونٹ میں1.4ارب روپے آتا ہے ۔ ایک اور ملازم گلزار احمد 12800تنخواہ پر 2012 میںملازم ہوتا ہے اس کے اکائونٹس میں1.2ارب روپے آتا ہے ، اقرار حسین13ہزار روپے ماہوار پر چنیوٹ پاور لمیٹد میںملازم ہے اور اس کے دواکائونٹس میں1.1ارب روپے،محمدانور اسسٹنٹ جس کی

تنخواہ 15ہزار ہے اس کے اکائونٹ میں 88کروڑروپے ، یاسین 31ہزار تنخواہ پر ملازم ہے اس کے اکائونٹ میں 71کروڑ روپے،توقیر الدین ہیڈ آفس 55کے ماڈل ٹائون شریف گروپ میں21ہزارپر ملازم ہے لیکن اس کے تین اکائونٹس کے ذریعے 48کروڑ ،ظفر اقبال اسسٹنٹ ہے جس کی تنخواہ 14ہزار ہے اس کے ایک اکائونٹ

میں52کروڑ،ڈیٹا انٹری آپریٹر تنویر الحق 15ہزار تنخواہ پر کام کرتاہے سا کے اکائونٹ میں51کروڑ،کاشف مجید آئی ٹی کلرک ہے جس کی تنخواہ 20ہزار ہے لیکن اس کے اکائونٹ میں36کروڑ کی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں،مسرورانور ان کا ذاتی کیشئر ہے اس کے نام پر اکائونٹ پر 23کروڑروپے آتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ تفتیش میں

سب نے اقرار کیا ہے کہ ان کے ناموں پر اکائونٹس کھولے گئے اوران تمام سے چیک بکس لے لی گئیں ، یہ شرط تھی کہ اگر آپ نے ملازمت کرنی تو آپ کے اکائونٹس کھلیں گے۔ ہمیں ان تمام لوگوںسے ہمدردی ہے کہ کیونکہ یہ عام غریب لوگ تھے لیکن قانون کا تقاضہ ہے کہ ہمیں انہیںملزمان نامزد کرناپڑا ۔شہزاد اکبر نے کہا کہ ان اکائونٹس

میں 16ارب کہاں سے آیا یہ بھی عجیب کہانی ہے ۔ کریانہ مرچنٹ، سکول ٹیچر، ہینڈی کرافٹس شاپس،جوتوںکی دکان،الیکٹرک ،ٹائروں کی دکان، آٹو پارٹس، کٹلری، ڈرائی فروٹس،ڈینٹل کے آلات کی دکان، سیمنٹ ڈیلرز، چکن سپلائرز،سینٹری سٹورز،اولڈ کارڈیلرز اور حتیٰ کہ ایک وکیل نے بھی پیسے جمع کرائے ہوئے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ

ہے کہ منی لانڈرنگ کو حلال ظاہر کرنے کیلئے مارکیٹ سے اوپن چیک لے لئے جاتے ہیں اور پھر انہیں اکائونٹس میں جمع کر اکے بینکنگ ٹرانزیکشن ظاہر کیا جاتا ہے اور سندھ میںبھی اسی طرح کی وارداتیں ہوئی ہیں ،کرپشن اورکک بیکس کی رقوم فلائنگ چیکس کے ذریعے بے نامی اکائونٹس میںجمع کرائے جاتے تھے اور اس پورے کام

کے جد امجد اورتربیت یافتہ شہباز شریف تھے۔ انہوںنے کہا کہ 90ء کی دہائی میں حدیبیہ پیپرز ملز میں بھی یہ طریق کار استعمال کیا گیا جس میں دوسروںکی شناخت کواستعمال کیا گیا اور ٹرانزیکشن کی گئی ، جس میں ٹی ٹیز کا کاروبار کیاگیا اور اب بے نامی اکائونٹس کے ذریعے وارداتیں کی گئیں، جب ا ن کا اقتدار پورا ہوا تو یہ اکائونٹس

بند کر دئیے گئے ۔ انہوںنے کہا کہ شریف خاندان کا شکوہ ہے کہ نیب ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا قانون ہے حالانکہ نیب کا قانون ان کے احتساب آرڈیننس کی شکل ہے، اب ہم نے ان کا یہ شکوہ بھی دورکردیاہے اوراب ان کے خلاف 1947 کے بنائے ہوئے قانون کے تحت چارج شیٹ ہے ،یہ جناح ؒ کے دور کا بنا ہو قانون ہے اور اس سے ان کا یہ شکوہ

بھی دور ہو گیا ہے ۔شہزاد اکبر نے کہا کہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مقدمات کوجلد از جلد کوئی منطقی نتیجہ نکلے ، اداروںنے موثر تحقیقات اور ٹھوس شواہد فراہم کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے ، اب پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے ،یہ ملک اور عوام کامفادہے کہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو کیونکہ بہت سارے ملزمان

تاخیر ی حربے استعمال کر کے بچ جاتے ہیں۔اس کیلئے کبھی عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے ،کبھی چارج شیٹ کو چیلنج کرکے اعلیٰ عدالتوںمیںاپیلوں میں چلے جاتے ہیں۔ ہماری چیف جسٹس پاکستان،چیف جسٹس ہائیکورٹ سے گزارش ہے کیونکہ وہ ایڈمنسٹریٹو انچارج بھی ہیںوہ اس کو دیکھیں،حکومت پابند ہے کہ انہیں جس

طرح کی معاونت چاہیے وہ انہیں فراہم کی جائے گی،اس کے تحت مزید عدالتوں کا قیام عمل میںآئے جو سہولتیں ہیں وہ دی جائیں گی ،پراسیکیوشن نے گواہ پیش کرنے ہیں اس لئے درخواست ہے کہ اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے ، اگر ان مقدمات کی سماعت کو عوام کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو وہ بھی کیا جائے اور لائیو کوریج

کرائی جائے تاکہ عوام کومعلوم ہو سکے کہ عدالت میں کیا ہو رہا ہے ،عوام اب یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان مقدمات میں ہے کیا ؟ جو ذمہ دار ہیں ان کے خلاف فیصلے ہونے چاہئیں ۔ انہوںنے کہا کہ ایف ایٹ ٹی ایف میںبھی اس حوالے سے دیکھا جاتاہے ، وہ دیکھتے ہیںکہ یہاں پر ادارے منی لانڈرنگ کے جرائم کو روکنے میں کتنے سنجیدہ ہیں ،

کرپشن کے بڑے کیسزاوران کا منطقی انجام تک پہنچنا بہت اہم ہے ۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ اداروںنے منی لانڈرنگ کے کتنے کیسز فائل کئے اور ان میں سے کتنے ہائی پروفائل ہیں ، ان کی تحقیقات اور عدالتوںمیںان پر کیا پیشرفت ہوئی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیںاحتساب کی نئی عدالتوں کے قیام کیلئے کہا گیا وہ کر دیا گیا ہے ،اس کے آگے ہم مداخلت

نہیںکر سکتے کیونکہ یہ عدلیہ کا اختیار ہے ۔انہوںنے کہاکہ حکومت کو ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں ایک نکتہ ضرور اٹھانا چاہیے کہ منی لانڈرنگ کے کیسز میں ایک حصہ بیرون ملک بھی ہے ، ان کیسز کے ملزمان برطانیہ میں مقیم ہیں ، ایک شخص کے پاس برطانیہ کی شہریت بھی نہیں ہے وہ سوال ہے کہ وہ کیسے وہاںبیٹھا ہے

اور اس پر ضرور بات کی جانی چاہیے ۔شہزاد اکبر نے کہا کہ اسحاق ڈار سمیت چار کیسز ہیں،کسی بھی ملک کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے ، آپ ایم او یو سائن کرتے ہیں پھر وہاں کی عدلیہ کی کارروائی ہوتی ہے ، ہمیں اس معاملے میں پہلی کامیابی 2019ء میں اسحاق ڈار کے کیس میںملی ، برطانیہ نے آمادگی ظاہر کی ہے اور اب آگے قانونی

معاملات ہیں، سی پی ایس نے اسے فائل کرنا ہے ،ہم اس کی بھرپور پیروی کر رہے ہیں اور برطانیہ کے ساتھ ان ایشو ز کواٹھا رہے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق اسحاق ڈار نے سیاسی پناہ کیلئے درخواست دی ہے اور ہم نے اس پر اپنانقطہ نظر بھی پیش کیا ہواہے ۔ سلمان شہبازاور علی عمران کے لئے ایم او یوسائن کرنے والا مرحلہ ابھی آنا

ہے اورہمیں پوری امید ہے ہم قانونی معاملات کوپورا کریں گے اورمزید پیشرفت ہو گی ۔انہوںنے کہاکہ نواز شریف کا کیس ان سے مختلف ہے اور ہم نے برطانیہ سے درخواست کی ہوئی ہے کہ نواز شریف ملزم نہیںبلکہ مجرم ہیں اورسزایافتہ ہیں ،برطانیہ کے امیگریشن قانون کے مطابق انہیں وزٹ ویزا نہیں مل سکتا ، نواز شریف وہاں علاج کی

غرض سے گئے تھے لیکن انہوںنے وہاں علاج نہیں کرایا، وزٹ کی 185د ن کی مدت گزار چکے ہیں ، انہیں ایک بار توسیع ملی، اب انہوںنے دوسری بار توسیع کی درخواست دی ہے جس پر ہم نے اپنے تحفظات کو تحریری طو رپر جمع کرادیا ہے اور اس حوالے سے دو خطوط ارسال کئے ہیں ، اس کے ساتھ ہم نے نواز شریف کے تمام کیسز

کے فیصلے بھی ساتھ لگا کربھیجے ہیںاسی وجہ سے نواز شریف کے کی درخواست کو مسترد کردیا گیا کہ انہیں توسیع نہیں دی جا سکتی ۔ نواز شریف نے اس فیصلے کو امیگریشن ٹربیونل میں چیلنج کیا ہوا ہے ۔ اگر یہاں ان حق میں فیصلہ نہیں آتاتو ان کے پاس اپیل کا ایک او رحق ہے اور انہیں برطانیہ چھوڑناپڑے گا ۔ان کا پاسپورٹ بھی

ایکسپائر ہو چکاہے ،اگر وہ پاکستان آنا چاہیں تو انہیں سفر کیلئے ایک دستاویز دی جا سکتی ہے لیکن وہ اس پر کسی او رملک سفر نہیں کر سکتے ۔ویسے سنا ہے کہ نواز شریف خود واپس آنا چارہے ہیں ، ہم تو چاہتے ہیں وہ واپس آئیں کیونکہ کوٹ لکھپت جیل میں ان کا بڑی بیتابی سے انتظار ہو رہا ہے ۔انہوںنے توہین عدالت کی کارروائی کے

حوالے سے کہا کہ یقینا میں اس میں توہین عدالت بنتی ہے ، جس نے ضمانت دی تھی ،عدالت یہ دیکھ سکتی ہے کہ اس کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے ۔ انہوںنے منی لانڈرنگ میں ساتھ دینے والے بینکرز کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کہا کہ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ،لیکن ایف آئی اے کے چالان میں ملزمان اس

لئے زیادہ نہیں رکھے گئے تاکہ اس کا ٹرائل طوالت کا شکار نہ ہو،ان کے خلاف الگ سے بھی چالان داخل کیا جا سکتا ہے ۔یہ کیسز اسٹیٹ بینک کو بھی بھجوائے جائیں گے کہ وہ ذمہ داری فکس کریں کہ کون کون ذمہ دار ہے ،ہر کیس کو کریمینل ٹرائل میںنہیں لا یا جاسکتابلکہ انہیں ریگولیٹری فریم ورک میں سزائیں دی جائیں تاکہ مثال قائم ہو

سکیں اور اس میں اسٹیٹ بینک کا کردار بڑا اہم ہے ۔انہوںنے کہا کہ اصل المیہ یہ ہے کہ کیسز کے فیصلے غیر معمولی تاخیر کا شکارہوتے ہیںاس لئے اس پر سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے ،اپوزیشن اوردیگر اداروںکو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ کیوں پاکستان میں ایسا نظام نہیں بنا سکتے کہ مقدمات کا فیصلہ سال کے اندر اندر ہو جائے

۔یہ درست ہے کہ ہماری آبادی بڑھی ہے لیکن نہ عدالتیں بڑھائی گئیں اور نہ ججز کی تعداد بڑھی ہے ،ہمیں ججز کی مجبوری کا پتہ ہے ، جس جج کے پاس کاز لسٹ میں چار ،چار سوکیسز ہونگے وہ سارے دن میں کیا انصاف کریں گے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت معاشی تنگی کے باوجودکام کرنے کے لئے تیار ہے ،کیونکہ جب کسی معاشرے میں

انصاف نہیں ہوتا تو پھر بہت سارے مسائل شروع ہو جاتے ہیں،شدت پسندی کے مسائل بھی انصاف کی فراہمی نہ ہونا کی وجہ سے ہے ۔ انہوںنے کہاکہ وزارت قانون اس حوالے سے ایک پیکج لارہا ہے ، بارکونسلز اورعدلیہ سے مشاورت مکمل ہو جائے گی تو اسے دسمبر کے آخر یا جنوری کے آغاز میںپارلیمنٹ پیش کردیا جائے گا جس کے

تحت یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ہم نظام میں کیا تبدیلی کرسکتے ہیں اس میں کیسے بہتری کر سکتے ہیں اور وہ ہم کریں گے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ بات کرپشن ختم کرنے کی بیانیے کی نہیں ، ہمیں اس کے خلاف مسلسل جنگ کرنی ہے ، ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار کتنی گر چکی ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کھاتاہے تو لگاتا بھی

ہے،100میں سے 40کھا لیے تو 60لگائے بھی ہیں ، سندھ میں یہ ہے کہ 60میںسے40کھا لئے ئے ، جب اس طرح کے بیانیے ہو تے ہیں تو پھر اخلاقی قدریںکمزورہو جاتی ہیں۔کرپشن ختم کرنے کا بیانیہ الیکشن کا بیانیہ نہیںبلکہ معاشرے کا بیانیہ ہے ، کرپشن کا ناسور ستر سال سے پھیلا ہوا ہے ،جب ملک میں غیر جماعتی

بنیاوں پر انتخابات ہوئے تھے اس وقت سے سیاست کے اندر کرپشن آ گئی ہے پیسہ آ گیا ہے ، اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے تین سالوں میں ختم کیا جاسکتا ہے تو وہ زیادہ توقع کر رہا ہے ۔آج ہمارے ہر شعبے میںکرپشن آگئی ہے ، یہ نظام کا فیل ہونا ہے ،ریگولیٹری فریم ورک ہیں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…