کراچی (این این آئی) انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت، نقیب اللہ اور ساتھیوں کے قتل میں نیا موڑ، را ئوانوار کے وکیل نے کہا کہ مدعی مقدمہ نے اپنے بیان میں مرنے والے بیٹے کا نام نسیم اللہ لکھوایا تھا نقیب اللہ نہیں، جرح کے دوران تفتیشی افسر عابد قائمخانی کا اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا یہ بات درست ہے۔ عامر منسوب نے کہا کہ میرے موکل پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور تفتیشی افسر نے
افسران کی ایما پر انہیں مقدمات میں ملوث کیا۔آئندہ سماعت دیگر ملزمان کے وکلا بیان پر جرح کرینگے۔ کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 3 میں نقیب اللہ اور ساتھیوں کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ تفتیشی افسر عابد قائمخانی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار سمیت دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ عامر منسوب نے تفتیشی افسر گواہ سے سوال کیا کہ مدعی مقدمہ نے اپنے بیان جو لکھوایا اس میں مرنے والے بیٹے کا نام نسیم اللہ لکھوایا۔ جس پر عابد قائمخانی نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ عابد قائمخانی کے نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کہنے پر عامر منسوب نے اعتراض کیا۔ عامر منسوب ایڈوکیٹ نے سوال کیا نسیم کے والد نے کیا عرفیت لکھوائی تھی۔ جس پر گواہ نے کہا نہیں ایسا نہیں کہا۔ عامر منسوب نے مقابلے میں مارے جانے والے نسیم اللہ کے شناختی کارڈ کی کلر کاپی عدالت کو دیکھائی۔ عامر منسوب نے کہا اس میں کہیں بھی عرفیت نہیں لکھی۔ وکیل صفائی نے سوال کیا جائے وقوعہ کی تصاویر کھینچنے والے کا بیان ریکارڈ کیا۔ عابد قائمخانی نے کہا نہیں کیا۔ عامر منسوب نے سوال کیا سترہ فروری دوہزار اٹھارہ کو آپ نے شہزادہ جہانگیر کو بلایا لیکن بیان نہیں لیا، اور اسے دھمکیاں دیں۔ تفتیشی افسر نے کہا نہیں یہ بات درست نہیں۔ وکیل صفائی نے پوچھا کہ ایڈیشنل آئی جی نے اس مقدمے میں ٹیم تشکیل دی کیا آپ نے بیان لیا۔ تفتیشی افسر گواہ نے بتایا کہ نہیں کوئی بیان نہیں لیا۔ وکیل صفائی نے پوچھا کیا آپ نے آغا شیر ہوٹل سے گرفتاری سے متعلق آس پاس سے سی سی ٹی وی لیئے۔ عابد قائمخانی نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں لیا تھا۔ عامر منسوب نے کہا کہ نقیب اللہ دہشتگرد تھا اور عدالتوں سے مفرور تھا۔ عابد قائمخانی نے بتایا کہ یہ بلکل غلط ہے۔ عامر منسوب نے جرح مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل را انوار کہ حوالے سے آپ نے افسران کی خوشنودی کے لیئے مقدمات درج کیئے۔ انہوں نے میرے موکل جھوٹا مقدمہ بنا کر اس میں ملوث کیا۔ عامر منسوب کی جرح کے بعد ڈی ایس پی قمر کے وکیل ملک زاہد کھوکھر ایڈوکیٹ نے سوال کیا کہ آپ کے علم میں کہ پولیس موبائلوں میں ٹریکر ہوتے ہیں۔ عابد قائمخانی نے کہا کہ جی کچھ میں ہوتے ہیں کچھ میں نہیں ہوتے۔ وکیل صفائی نے پوچھا آپ کو دیئے گئے ڈی ایس پی قمر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کی گاڑی کا ٹریکر چیک کریں، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ میں نے چیک نہیں کرایا۔ جس پر عامر منسوب نے کہا کہ ارشد پپو کیس میں پولیس انسپکٹر کی گرفتاری ٹریکر کی ہی وجہ سے ہوئی تھی۔ جرح مکمل ہونے عدالت نے سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ آئندہ سماعت پر دیگر ملزمان کے وکلا جرح کرینگے۔