بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

تحریک انصاف کے منظور کئے گئے تو کیا ہوگا؟جانیئے اس رپورٹ میں

datetime 30  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوزڈیسک) تحریک انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں نے جس دن اپنے استعفے پیش کردیئے تھے، انہیں اسی روز قبول کرلینا چاہئے تھا۔ کم از کم قانون تو یہی کہتا ہے۔ قومی، پنجاب اور سندھ اسمبلیوں کے اسپیکر کو یہ استعفے نہ منظورکرنے کا کوئی قانونی اختیار نہ تھا۔ لیکن نظریہ ضرورت کے تحت سیاست اسپیکر کو غیر قانون راستہ اختیار کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح ہم نے ایک بار پھر سے غلط نظیر قائم کی۔ اب اس سے نکلنے اور آگے بڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟ جے یو آئی(ف) اور ایم کیو ایم کو چھوڑ کر حکومت اور اپوزیشن نے آج جو موقف اختیار کیا ہے وہ قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ تحریک انصاف کے منتخب ارکان کے استعفے منظور بھی ہوجاتے ہیں سیاسی تجزیہ کارمظہرعباس کے مطابق تو اس کا کچھ زیادہ نہیں بگڑے گا۔ جو بظاہر دور کی بات لگتی ہے۔ جوڈیشیل کمیشن کے بعد کے منظر میں عمران خان اور ان کی جماعت کو اس کی رپورٹ سے پہنچنے والے نقصان سے سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ استعفوں کی منظوری انہیں سکون کا سانس فراہم کرسکتی تھی کیونکہ اس کا مطلب تقریباً100 نشستوںپر ’’منی انتخابات‘‘ کی صورت نکلتا اور انہیں سڑکوں پر سیاست کی جانب دھکیل دیتا، جسے تحریک انصاف نے جوڈیشیل کمیشن رپورٹ آنے کے بعد ترک کردیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے تمام پارلیمانی جما عتو ں کے سربراہوں سے ان کی رضا مندی کیلئے رابطہ کرکے درست سیاسی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ لیکن اس مرحلے پر استعفوں کی منظوری سے حکومت کو کوئی مدد نہیں ملے گی کیونکہ اسے سیاسی انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔ دوسرے اسپیکر ایاز صادق بڑی مشکل پوزیشن میں ہیں کیونکہ عمران خان نے ان کے خلاف الیکشن ٹریبونل میں عذرداری داخل کررکھی ہے۔ اگر وہ عمران خان کا استعفی منظور کرتے اور ٹریبونل میں اپنی نشست کھودیتے ہیں تو یہ ان کیلئے نہایت پریشان کن بات ہوگی۔ ایاز صادق نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی لیکن غیر قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ جب انہوں نے اسحٰق ڈار اور خورشید شاہ سے ایک ہفتے کے اندر معاملے کا حل تلاش کرنے کیلئے کہا۔ فیصلہ تو حکومت یا اپوزیشن نے نہیں بلکہ انہیں خود کرنا ہے۔ نظریہ ضرورت فارمولے کو اختیار نہ کیا جائے تو دستیاب قانونی حل کیا ہے؟ اسے کسی لیگل فریم ورک کے تحت ہونا چاہئے جو اس کیس میں وجود نہیں رکھتا۔ درحقیقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز غیر قانونی انداز میں کام کررہے ہیں کیونکہ استعفوں کو اتنی آسانی سے واپس قرار نہیں دیا جاسکتا اور یہ واپس بھی نہیں لئے جاسکتے جب تک مستعفی ارکان یہ لکھ کر نہ دے دیں کہ ان سے استعفے ناجائز دبائو ڈال کر لئے گئے۔ یہ بات عمران خان کے کیس میں لاگو نہیں ہوتی۔ لہذا موجودہ منظر نامے میں تحریک انصاف، حکومت اور ساتھ میں اسپیکرز غلطی پر ہیں۔ چونکہ عمران خان اب بھی قومی اسمبلی میں جانے سے گریزاں ہیں، وہ اپنی پارٹی کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مستعفی ہوکر تازہ مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلیوں میں آنےپر غور کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ قومی، پنجاب اور سندھ اسمبلیوں کے اسپیکرز سے بھی غیر قانونی انداز اختیار کرنے اور استعفوں پر سیاست کرنے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ ماضی(دوران دھرنا) کے برخلاف استعفے تحریک انصاف کو نیا جنم دے سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی مظلومیت کا کارڈ دکھاکر کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ عمران خان’’منی انتخابات‘‘ میں حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں کیونکہ سڑکوں پر سیاست کے اپنے محرکات ہوتے ہیں۔ دوسرے تحریک انصاف احتجاجاً خیبر پختون خوا اسمبلی کو تحلیل کرکے سیاسی بحران کھڑا کرسکتی ہے۔ لیکن اس کیلئے اسے کم از کم جماعت اسلامی کی حمایت درکار ہوگی جس نے دھرنا سیاست سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا اور خیبر پختون خوا اسمبلی توڑنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن تحریک انصاف کا مخمصہ خود اس کے اندر ہے۔ کئی پارٹی رہنمائوں نے الزام لگایا تھا کہ کسی تیاری کے بغیر جوڈیشیل کمیشن میں گئےگو کہ وہ اپنے چیئرمین پر براہِ راست الزام عائد نہیں کرتے لیکن حیران تھے کہ انہیں اب بھی اپنے غلط مشیروں پر بھروسہ ہے۔ لہذا تحریک انصاف اگر منقسم ہوکر سڑکوں پر آئی تو اسے ڈی چوک کی طرح ہجوم کو اکٹھا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ زیادہ پریشان کن یہ ہوگا کہ اگر انہیں جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ پر نہیں بلکہ مستعفی ہونے کے غلط فیصلے اور پارلیمنٹ کی توہین پر معافی مانگنے کیلئے کہا جائے۔ عمران خان سے توقع نہیں کہ وہ معافی مانگیں بلکہ وہ باہر رہنے کو ترجیح دیں گے۔ ساتھ ہی عمران خان تحریک انصاف کو ایک مضبوط پوزیشن سے اس حال میں لانے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ یہ بات بھی لوگ جانتے ہیں کہ سیاست کو عمران جیسے شفاف سیاست دانوں کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن محض ایمانداری ہی آپ کو اچھا سیاست دان نہیں بناتی۔ یہ کیسی مایوس کن بات ہے کہ عمران اور ان کے مشیر تحریک انصاف کو ایک ایسی پوزیشن میں لے آئے جہاں اب ان کی قسمت مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں ہے اور وہ خود پیپلز پارٹی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) نے گوکہ قانونی موقف اختیار کیا لیکن یہ بھی تحریک انصاف کے ان دونوں کے خلاف اپنے موقف کے باعث ہے۔ اگر استعفے منظور ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات کے دوران کراچی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جے یو آئی (ف) کی جانب سے خیبرپختون خوا میں کسی بڑے چیلنج کا امکان نہیں ہوگا۔ اگر ملتوی نہ ہوئے تو پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات آئندہ ماہ ہوں گے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں ہی جلد ہی خصوصاً پنجاب کی ’’گرین وکٹ‘‘ پر سیاسی معرکہ آرائی کی تیاریاں شروع کردیں گے۔ کراچی میں یہ تحریک انصاف بمقابلہ ایم کیو ایم یا تحریک انصاف، جماعت اسلامی بمقابلہ ایم کیو ایم معرکہ ہوگا۔ لہذا تحریک انصاف اگر یہ سوال اٹھاتی ہے کہ جوڈیشیل کمیشن رپورٹ میں شاید نظریہ ضرورت کو لاگو کیا گیا تو وہ اپنی نشستوں کو بحال رکھے جانے کیلئے بھی اسی طرح کے قانون کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ قانون کے تحت اب وہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نہیں رہے۔ استعفوں کی منظوری کی صورت میں اس کے بعد کا منظر دلچسپی کا حامل ہوگا کیونکہ سینیٹ انتخابات میں ان کی شرکت بھی سوالیہ بن سکتی ہے۔ لہذا تمام تر ممکنات کے تحت نظریہ ضرورت کا تاریک قانون گو کہ غیر سرکاری طور پر ہی سہی غالب ہوگا لیکن اس بار یہ سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ہوگا۔ جو سوال لاجواب ہے وہ یہ کہ کس طرح قانون کے تحت؟۔



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…