کراچی (نیوزڈیسک) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سول ایوی ایشن کیخلاف قومی خزانے کو 67کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے، بے ضابطگی اور کرپشن کے الزامات کی تحقیقات شروع کردی ہیں جبکہ ادارے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے معاملے کا صرف دوبارہ جائزہ لے رہی ہے۔تجزیاتی صحافی اسد ابن حسن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تحریر کیا کہ کمیٹی کو سی اے اے کی ڈپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی کی ایک رپورٹ موصول ہوئی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 2004ء میں سی اے اے کی انتظامیہ نے کارگو تھروپٹ چارجز وصول کرنے کا ٹھیکہ جوکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان کے لیے تھا وہ بغیر ٹینڈر کے جاری کردیئے گئے۔ کراچی کا ٹھیکہ میسرز ایئرگیٹ انٹرنیشنل کو تین سال کے لیے دیا گیا جس میں پہلے سال کا معاہدہ ایک کروڑ 81 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ تھا جبکہ باقی دو سال 10 فیصد ماہانہ اضافے کے ساتھ موصول کرنی تھی جبکہ سی اے اے کے مروجہ قانون کے مطابق باقی دو سال کا ماہانہ اضافہ بالترتیب 12.5 اور 15 فیصد وصول کیا جانا چاہیے تھا جب مذکورہ معاہدے کی مدت ختم ہوگئی تو سی اے اے نے دوبارہ دو سال کی تجدید کردی، اس دفعہ دو کروڑ 30 لاکھ 59 ہزار 600 روپے ماہانہ پر۔ یہی نہیں جب اس معاہدے کی مدت 2009ء میں ختم ہوگئی تو مزید 4 سال کی توسیع 2013ء تک کردی گئی۔ اس دفعہ میسرز ایئرگیٹ انٹرنیشنل نے سول ایوی ایشن کو چار سال تک 2 کروڑ 59 لاکھ 42 ہزار 52 روپے ماہانہ ادا کیے جبکہ مروجہ قانون کے مطابق باقی تین سال رقم میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس شدید بے ضابطگی اور مبینہ کرپشن سے ادارے کو تین کروڑ 80لاکھ سے زائد (671.38) ملین روپے کا نقصان ہوا۔ اس مبینہ گھپلے کی نشاندہی سی اے اے کی ایک ڈپارٹمینٹل آڈٹ کمیٹی نے کی جس پر سی اے اے نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیتے ہوئے تحقیقات کرائیں۔ بورڈ آف انکوائری نے 25؍ ستمبر 2010ء کو اپنی رپورٹ پیش کی جس پر ڈپارٹمینٹل آڈٹ کمیٹی نے اپنے تحفظات دیتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کردیا اور ایک نئے بورڈ آف انکوائری کو تشکیل دینے کی سفارش کی مگر یہ نیا بورڈ ایک سال تک تشکیل نہیں دیا جاسکا اور بعد میں اس نئے بورڈ نے بھی پہلے والے بورڈ جیسے ہی رپورٹ دی۔ آخرکار معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھیج دیا گیا۔ کمیٹی نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو خط تحریر کیا کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں جس کے بعد ایف آئی اے نے انکوائری نمبر 8/2015 درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہیں، اس سلسلے میں جب سول ایوی ایشن کے ترجمان پرویز جارج سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے دو مرتبہ بورڈ آف انکوائری تشکیل دیئے گئے اور دونوں نے کوئی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی اور ایف آئی اے کو صرف ری چیکنگ کرنے کو کہا گیا ہے۔