کراچی (نیوزڈیسک)حساس اداروں نے60 سے زائد این جی اوز کی سرگرمیوں پر گہرے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان این جی اوز کو ایک امریکی این جی او جو پاکستان میں20 سال سے کام کر رہی تھی اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ تک رسائی حاصل کرنے اور اس مقصد کیلئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو استعمال کرنے کے بعد نظر میں رکھا گیا تھا۔معروف تجزیاتی صحافی جمشید بخاری کی ایک رپورٹ کے مطابق مشکوک این جی اوز میں51 کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا سے ہے جن میں امریکا کی19، برطانیہ کی14، جرمنی، اسپین اور فرانس کی بالترتیب5، 3 اور دو این جی او شامل ہیں جبکہ سعودی عرب کی سات اور ترکی کی ایک این جی او بھی مشکوک سرگرمیوں کی حامل این جی اوز میں شامل ہے۔ حساس اداروں کی رپورٹ کے بعد ہی حکومت نے این جی او کی رجسٹریشن، آڈٹ اور سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اس ضمن میں موثر قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں رفاہی، فلاحی، سماجی کاموں کی آڑ میں ایک لاکھ سے زائد این جی اوز سرگرم ہیں جن میں سے55 سے60 فیصد غیر رجسٹرڈ ہیں، 45 ہزار رجسٹرڈ ملکی و غیرملکی این جی او جو انسانی حقوق، ماحولیات، صحت، تعلیم، بچوں، خواتین سمیت دیگر سماجی شعبوں میں خدمات کا دعویٰ کرتی ہیں ان این جی اوز میں دو لاکھ سے زائد افراد کل وقتی جب کہ اتنے ہی جز وقتی کام کرتے ہیں۔ ان این جی اوز کو کن ذرائع سے رقم ملتی ہے اور کتنی رقم ملتی ہے اور کہاں خرچ ہوتی ہے اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کی گئی ہے تاہم بھارت کی این جی اوز کو10-2009ء میں 10 لاکھ 35 ہزار 207 ڈالر کی غیرملکی امداد ملی جسکا ریکارڈ موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیرملکی این جی اوز غیرملکی امدادی رقوم اپنے ہی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ حساس اداروں نے مزدوروں کے حوالے سے کراچی کی ایک این جی او کے خلاف بھی تحقیقات شروع کر دی ہے جو بظاہر مزدوروں کے حقوق کیلئے کام کرتی ہے تاہم اسکے روابط بھارت کی اہم شخصیات، تھنک ٹینک اور صحافیوں سے ہیں اور اس این جی او کے اہم افراد بھارت آتے جاتے رہتے ہیں۔ حساس اداروں نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں بھی این جی اوز کی مشکوک سرگرمیوں کی جانب واضح طور پر صفحہ332 پیراگراف786 میں تحریر کیا ہے کہ اگر پاکستان کو اپنے زیرنگیں علاقوں میں امن اختیار کرنا ہے تو اسے فوری طور پر سی آئی اے اور دیگر بیرونی ملکوں کے خفیہ اور عسکری نیٹ ورک کو ختم کرنا ہو گا۔ پیراگراف نمبر531میں تحریر کیا گیا ہے کہ سی آئی اے مختلف طریقوں سے اپنا نیٹ ورک چلاتی ہے اور اس نے این جی اوز ٹھیکیداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سفارت کاروں کے بھیس میں عہدیداروں اور تکنیکی ماہرین کا جال پھیلا رکھا ہے۔ رپورٹ کے پیراگراف نمبر572 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف اسلام آباد میں امریکیوں نے389 گھر کرائے پر حاصل کر رکھے ہیں۔ پیراگراف نمبر516 میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے امریکیوں کو بے تحاشا ویزے دیئے جس کی وجہ سے سی آئی اے کو پاکستان میں وسیع نیٹ ورک بنانے میں مدد ملی، یہی نہیں ایک اور رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ غیرملکی این جی اوز کئی وفاقی، سابق وفاقی سیکرٹری، وفاقی سیکرٹریز کے رشتہ داروں، بااثر افراد کے رشتہ داروں، کچھ حاضر سول اور غیر سول افسران کے رشتہ داروں کو بھاری مشاہرے پر رکھ لیتی ہے جس کی وجہ سے ان کیخلاف کارروائی بھی نہیں ہوتی اور انہیں متعلقہ معلومات بھی مہیا ہو جاتی ہے اس ضمن میں2008ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی انتخابات کے بعد وزارت داخلہ کے ذیلی ادارے کرائسز مینجمنٹ کو ایک خط بھجوایا جس میں ایک درجن این جی اوز کے نام تھے اور کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن ان این جی اوز کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، یہ این جی اوز پاکستان میں الیکشن کے طریقہ کار، خواتین، انتظامات اور دیگر امور میں مداخلت کر کے پاکستان کے انتخابات کو متنازعہ بنا کر ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا چاہتی تھیں۔