اسلام آباد (نیوزڈیسک) حکومت اور اپوزیشن نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر اتفاق رائے کیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومت اپوزیشن مل کر چلیں گے، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ (آج) منگل کو ایوان میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو ایوان میں زیر بحث لایا جائے، تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تسلیم کرنا اچھا اقدام ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا، باہر بیٹھے اراکین کو ایوان میں لانے میں کردار ہے، سپیکر کا کردار ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ خوشگوار انداز میں چلے انتشار نہ ہو، چیلنجوں کا سامنا پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے، جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کرنا اچھا اقدام ہے۔ جس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار تمام سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم کو دیا تھا اس کی تشکیل اور ایجنڈے کے حوالے سے کئی اجلاس ہوئے اس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی تھی، تمام سیاسی جماعتوں کی راہنمائی میں چار متنازعہ نکات پر بھی اتفاق ہوا، کمیشن کے حوالے سے آرڈیننس میں یہ طے شدہ تھا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ وفاقی حکومت کو ترجیحاً 45 دن میں دے گا، اس قانون کے تحت اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا کہا گیا تھا اس لئے یہ عوامی مسودہ ہے اس کو عوام تک پہنچنا چاہیے، انکوائری کمیشن میں اگر 2013ءکے عام انتخابات میں دھاندلی ثابت ہونے پر طے تھا کہ وزیراعظم اسمبلی توڑ دیں گے اور نئے انتخابات ہوں گے، یہ پہلی بار ہوا کہ دو تہائی اکثریت والی حکومت ایسا معاہدہ کر رہی تھی، ہمیں اپنی جماعت نے کہا تھا کہ اگر الزام لگانے والے جھوٹے ثابت ہوئے تو کیا وقت ضائع کرنے پر قوم سے معافی مانگیں گے، ہم نے اس حوالے سے معاہدے میں موزوں الفاظ کا استعمال کیا کہ اگر الزام غلط ثابت ہوئے تو پی ٹی آئی ایوان میں آ کر کام کرے گی اور اپنے الزامات واپس لے لے گی۔ انہوں نے کہا کہ نادرا کے چیئرمین کے لئے پی ٹی آئی سے مشاورت کی تھی اور چیئرمین نادرا کا تقرر میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا اور یہ انکوائری کمیشن کے معاہدے سے قبل ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو اراکین کے خلاف الزام تراشی ہو رہی ہے، سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل اس حوالے سے روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کا رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ درست ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ معاہدے کی کاپیاں بھی دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ کاش انکوائری رپورٹ آنے کے بعد اس کو نئے آغاز کے طور پر لیا جاتا، وزیراعظم نے بردباری کا مظاہرہ اپنی تقریر میں کیا، ہم سب کو اس معاہدے کی پاسداری کرنا چاہیے، اب عوام میں جا کر یہ کہنا کہ اب بھی الزام پر قائم ہیں، یہ افسوسناک ہے، اب ان کی تسلی ہو جانی چاہیے۔ ہم مثبت توقع رکھتے تھے کہ عمران خان اس فیصلے کو تسلیم کرتے اس آرڈیننس کے تحت وہ ایسا الزام نہیں لگا سکتے، اس سے انکوائری کمیشن بنا، رپورٹ کے بعد عمران خان کی پریس کانفرنس کے دوران ان کے ساتھ بیٹھے دونوں رہنماﺅں کے اس معاہدے پر دستخط ہیں۔ اس پر افسوس ہوا ہے، پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی تشکیل اس لئے کی گئی تھی کہ اصلاحات کی جا سکیں، اس کے 12 اجلاس جبکہ ذیلی کمیٹی کے 23 اجلاس ہوئے، ہم نے اس کے اجلاس جان بوجھ کر کم کئے کیونکہ پی ٹی آئی اراکین نہیں آ رہے تھے، منگل کو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، ہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ یہ پاکستان کے مستقبل کے لئے مفید ہو گی تاہم شرط یہ ہے کہ ہم سب کی سوچ مثبت ہو، انکوائری کمیشن کے معاہدے کو سب تسلیم کریں، پاکستان کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے تاہم ہم سب کو مل کر اس کو بہت آگے بڑھا سکتے ہیں، اقتصادی راہداری منصوبے، آپریشن ضرب عضب سمیت دیگر اہم موضوعات پر اتفاق رائے سے بہتری آئی، میرا ایمان ہے کہ پاکستان میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ مستقبل میں ترقی کے راستے پر گامزن ہو گا۔ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ ایک تاریخ ہے، ماضی میں بھی اس قسم کے کمیشن بنے، حمود الرحمن کمیشن، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹس کو منظر عام پر نہیں لایا گیا، ہم اس انکوائری کمیشن کو پبلک دستاویز بنایا، یہ بہت بڑی کامیابی ہے، ہم سب نے اس رپورٹ کو تسلیم کیا، یہ بڑا اہم قدم ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہم آج اسمبلی میں موجود ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ اسمبلی جائز اور قانونی نہیں ہے، ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے، اس پر سب کا اتفاق ہے، جمہوریت کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کا انتخاب نہ کرنے پر قیادت اور پی ٹی آئی کا اتفاق تھا، یہ ہماری ذہنی پختگی تھی، ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کسی کو فائدہ نہیں، ہمیں سب بھول کر آگے بڑھنا ہے، 1770ءکے بعد تمام الیکشنوں پر اعتراضات اٹھائے، وزیراعظم نے بھی اس طرح کے تحفظات کا اظہار کیا، محترمہ بے نظیر نے بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا، اب عمران خان نے بھی ایسا کہا، الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھائے جاتے رہے ہیں، بھارت میں الیکشن کمیشن نے اصلاح کرتے ہوئے قانون بنائے، کمیشن کو خود مختار بنایا گیا، آج وہاں انتخابی نتائج تسلیم کئے جاتے ہیں، ہماری بدقسمتی ہے، 1970ءسے اب تک اصلاحات نہیں کی گئیں، 2013ءکے انتخابات پر 21 جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے، پی ٹی آئی نے الزامات لگائے تو ان کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی، ہم نے پہلے قانونی راستہ اختیار کیا، عدالت میں گئے، ہر فورم اپنایا، ایک سال انتظار کیا، پھر مجبوری میں ہم نے ووٹ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے یہ قدم اٹھایا، قوم کے دو سال ضائع نہیں کئے، قوم کی 6 دہائیاں پہلے ضائع ہوئیں، اصلاحات نہیں ہو سکیں، الیکشن کمیشن کو خود مختار بنایا گیا، انکوائری کمیشن نے کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے، اب ہم نے آگے بڑھنا ہے، انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کا کمیشن بنانے کا مطالبہ بلاجواز نہیں تھا، اسحق ڈار کا اس پورے عمل میں رویہ مثبت رہا، بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ اس کا حل نکلے، جوڈیشل کمیشن بنا تو دھرنے کی سیاست ختم ہوئی، ہم سب کو پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے، 1970ءکے بعد منتخب ہونے والے تمام اراکین کو معافی مانگنی چاہیے، پہلی بار ایک کمیشن بنا، قانون سازی ہوئی، ہم واقعتاً ایک شفاف انتخاب چاہتے ہیں، نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، انکوائری کمیشن نے الیکشن کمیشن کا آڈٹ کیا ہے، 2013ءکے انتخابات کی انتظامی خامیوں کی نشاندہی کی۔