کراچی(این این آئی)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے گجر اور اورنگی نالوں کی چوڑائی پر کام شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے متاثرین کی معاوضے اور آپریشن روکنے کی درخواست مسترد کردی۔پیرکوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گجر نالہ، اورنگی نالہ تجاوزات کیس میں لیزمکانات گرانے سے متعلق وضاحت کیلئے کے ایم سی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے
اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی کا سسٹم کینیڈا سے چلایا جارہا ہے،نجی ٹی وی کے مطابق کراچی پر کینیڈا سے حکمرانی کی جارہی ہے،یہاں مکمل لاقانونیت ہے کہاں ہے قانون ؟یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت ؟ ایسی ہوتی ہے حکمرانی ؟نالے صاف نہیں کرسکتے، صوبہ کیسے چلائیں گے ؟ دو سال ہوگئے آپ نالہ صاف نہیں کرسکے۔ دوران سماعت وکیل کے ایم سی نے بتایا کہ سپریم کورٹ فیصلے کے تحت گجر نالے کو چوڑا کیا جا رہا ہے، نالے کوچوڑا کرنیکی زدمیں لیزمکانات بھی آرہے ہیں، اینٹی انکروچمنٹ ٹربیونل نے لیزمکانات گرانے سے روک دیاہے۔جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ نالوں کی ری الائنمنٹ کردی گئی ہے، متاثرین کو 2سال تک 20 ہزار روپے کرایہ دیاجائیگا، وفاق کی نئے پاکستان مہم میں متاثرین کو گھر دیئے جائیں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کراچی میں تو بارشیں ہونے والی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ حکم امتناع کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں نالوں کے اطراف سٹرک کا مقصد دوبارہ قبضے کو روکنا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا نالوں پر لیز آخر دی کس نے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ مختلف وقتوں پر مختلف لوگوں نے لیز دی۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے، لیز دینے میں حکومتی ادارے ذمہ دار ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ کوشش ہے کم از کم گھر توڑے جائیں، نالوں کو دوبارہ سے ری ڈیزائن کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کس قانون کے تحت ایس بی سی اے نے قبضے ہونے دیئے؟۔فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی جا رہی ہے، سپریم کورٹ نے نالوں کے اطراف سٹرک کا کوئی حکم نہیں دیا، جس پر وکیل متاثرین نے کہاکہ گھروں کی لیز کے ڈی اے اور کچی آبادی کی کے ایم سی نے دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہاکہ سٹرک بنا رہے ہیں تو اس کی منظوری تو قانون کے مطابق ہوگی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ نالے کی اراضی سٹرک بننے کے بعد بھی بچے گی، 6ہزار متاثرین کو متبادل دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہاکہ فیصل صدیقی یہ زمین متاثرین کی نہیں نالے کی اراضی ہے، یہ لیز کیسے دی گئیں، کیا معلوم نہیں؟ زمین سرکاری ہے تو متاثرین کو ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ چائنہ کٹنگ کا معاملہ ہے، سب جعلی دستاویزہیں، لیز چیک ہوئیں تو سب فراڈ نکلے گا۔فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ سارا ملبہ غریبوں پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے، امیروں کے گھروں کی بھی تو لیز چیک کی جائیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ لیز متعلقہ محکمے میں لے جائیں اصلی ثابت کریں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا 12 اگست کا فیصلہ ایک بار پڑھ لیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اپنی لیزیں دیکھیں، سب جعلی ہوں گی تو فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ این ڈی ایم اے نالوں کی چوڑائی کا کام کر رہی ہے، سپریم کورٹ نے متاثرین کو معاوضے کی بھی ہدایت کی۔عدالت نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اصل لیز سے متعلق حکم دیا نہ کہ جعلی لیز والوں کو، ایسے تو پورا کراچی معاوضے کے لیے آجائے گا، جس کے بعد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے گجراوراورنگی نالہ کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے نالوں کی چوڑائی پر کام شروع کرنے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ نے متاثرین کی معاوضے اورآپریشن روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نالوں پر حکم امتناع بھی کالعدم قرار دے دیئے۔