کراچی(این این آئی) حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں کووڈ 19 کی موجودہ تیسری لہر کے پیچھے برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل کی مختلف اقسام ذمہ دار ہوسکتی ہیں۔تفصیلات کے مطابق 3 ہزار 501 مثبت نمونوں کے تجزیے پر مشتمل تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی میں دسمبر 2020 سے فروری 2021 تک کی
رپورٹ کیے گئے کووڈ 19 کے کیسز میں سے 54 فیصد انفیکشنز کی وجہ نئی اقسام ہیں۔تحقیق کے مطابق ستمبر سے نومبر 2020 کے مہینوں میں مثبت کیسز کا تناسب 1.538 فیصد تھا جو دسمبر 2020 سے فروری 2021 میں 7.6 فیصد تک پہنچ گیا۔اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیسز میں یہ ڈرامائی اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسز ان ممالک سے درآمد ہوئے جہاں وائرس نومبر 2020 کے دوران یا اس سے قبل پھیل رہا تھا۔سینئر پیتھالوجسٹ اور انفیکشن کنٹرول سوسائٹی آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر رفیق خانانی کا کہنا ہے کہ ‘ہپ تحقیق کی سب سے تشویشناک بات ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایئرپورٹس پر ہمارا کووڈ 19 سے متعلق نگرانی اور اسکریننگ کا نظام خامیوں سے بھرا ہے اور در حقیقت ایسا لگتا ہے کہ مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے کسی قسم کی نگرانی نہیں کی جارہی ہے’۔ڈاکٹر رفیق خانانی نے یہ تحقیق ساتھی ڈاکٹر محمد حنیف اور ڈاکٹر عدنان دینار کے ساتھ کی جو دونوں مولیاکیولر بائیولوجسٹس ہیں۔اس کے علاوہ تحقیق کو بین الاقوامی جریدے میں اشاعت کے لیے قبول بھی کیا گیا ہے۔ڈاکٹر رفیق خانانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘بغیر کسی نگرانی کے بین الاقوامی پروازوں اور کسی بھی ملک سے پاکستان آنے پر قرنطینہ اقدامات نہ ہونے سے پاکستان میں مختلف اقسام کے پھیلا میں تیزی آئی ہے’۔تجزیے
میں 944 نمونوں میں یوکے اور 934 میں برازیل اور جنوبی افریقہ کی اقسام پائی گئیں جبکہ پرانے وائرل انفیکشن کے 1623 کیسز تھے۔انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو کورونا وائرس کی تیسری لہر سے بری طرح متاثر ہوا ہے، اور کہا کہ آنے والے وقت میں ملک کے ان حصوں میں
صورتحال زیادہ سنگین ہونے کا امکان ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کا براہ راست اثر ویکسین کی افادیت پر پڑے گا خاص طور پر جنوبی افریقہ کے معاملے میں، اس مخصوص قسم کے خلاف ویکسین زیادہ موثر نہیں پائی گئی ہیں، دوسرا اگر ہم اس کی نئی اقسام درآمد کرتے رہیں گے تو کورونا وائرس کے خلاف ہماری جنگ کبھی ختم نہیں
ہوگی’۔انہوں نے ایئرپورٹس پر کڑی نگرانی اور مثبت کیسز میں قرنطینہ پروٹوکول کی تعمیل کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔برازیل، جنوبی افریقہ اور برطانیہ کی مختلف اقسام کے بارے میں ڈاکٹر رفئق خانانی نے کہا کہ وہ تیزی سے منتقل کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے عالمی سطح پر تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا ‘ہماری
تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ یہ مختلف اقسام خواتین اور کم عمر افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہیں’۔انہوں نے مزید کہا کہ ٹیم صرف لیب کے نمونوں کا تجزیہ کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ بیماری کی شدت پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتی ہے کیونکہ اس کا مریضوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔دریں اثنا کراچی یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر برائے
وائرولوجی کے ماہرین نے بھی اس سہولت میں تجربہ کیے گئے نمونوں میں جنوبی افریقہ کی اقسام کا پتہ لگایا ہے۔اس مرکز میں تجربہ لیے گئے تقریبا 50 فیصد مثبت کیسز میں برطانیہ کی قسم اور 25 فیصد میں جنوبی افریقہ کی قس، شا،؛ تھی۔کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر برائے کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد اقبال چودھری نے بتایا کہ وائرس کے تیزی سے ابھرتے ہوئے نئے تنا کی بروقت شناخت اور ان پر قابو پانے کے لیے وائرس کی جینومک نگرانی کی ضرورت ہے۔