اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سیالکوٹ موٹر وے کیس کی متاثرہ خاتون کی فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک خاتون کیمرے کے سامنے بات کر رہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ خاتون لاہور موٹر وے کیس کی خاتون ہے، ایک نجی ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں اس دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ وہ خاتون نہیں ہے، واضح رہے کہ سوشل
میڈیا پر تیزی سے ویڈیو وائر ل ہوئی ہے جس میں ایک خاتون انگریزی میں بات چیت کر رہے ہیں، فیس بک پوسٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ خاتون عوام کے ساتھ سرعام گفتگو کر رہی ہے، فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ویڈیو میں خاتون کہہ رہی ہے کہ 10 ستمبر 2020ء کو میں پاکستان کے شہر لاہور سے گوجرانوالہ گاڑی پر جا رہی تھی میرے ساتھ دو بیٹے بھی تھے، میری گاڑی ہائی وے پرخراب ہو گئی اور پٹرول ختم ہو گیا، میں نے مدد کے لیے پولیس کو کال کی اور پولیس کا انتظار کرنے لگی، اسی دوران کچھ لوگ میری کار کے قریب آئے اور میری گاڑی کا شیشہ توڑ دیا اور گاڑی سے باہر نکالا اور میرے ساتھ برا سلوک کیا اور یہ سب کچھ میرے بچوں کے سامنے کیا گیا۔ویڈیو پیغام میں کہا گیا کہ بے آبرو کرنے والے مجرم نے میری جیولری، بینک کارڈ اور پیسے چرا لیے، تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ عمر شیخ نے مجھے اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا کیونکہ میں کسی محرم کے بغیر سفر کر رہی تھی۔اے ایف پی نے بھی اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا ہے، اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جو خاتون ویڈیو میں پیغام دے رہی ہے اس کا موٹر وے کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ وہ خاتون نہیں ہے بلکہ یہ برطانوی خاتون انعم اقبال ہے، جس نے اپنے آپ کو انسانی حقوق کی رکن ظاہر کیا ہوا ہے، اصل ویڈیو خاتون کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی ہے، جو پاکستان میں خواتین کیخلاف اس
طرح کے کیسز کے خلاف آگاہی مہم چلا رہی ہے۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق خاتون نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ موٹر وے کیس کی متاثرہ خاتون نہیں ہیں۔ غرض اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا گیا ہے اور یہ خاتون موٹر وے کیس کی متاثرہ خاتون نہیں ہے۔