اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے اسلام آباد پولیس کو مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں کو 15 دن میں گرفتار کرنے کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ مطیع اللہ جان کا واقعہ کیوں ہوا اور کرنے والے کون تھے؟صحافیوں کو ایسے واقعات سے کیسے محفوظ بنایا جائے گا؟
جبکہ وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ مطیع اللہ جان کا واقعہ تشویشناک واقعہ ہے،معاشرے میں قلمکاروں کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق ہیں، ولی بابر تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، سندھ میں عزیز مین کو قتل کر دیا گیا ،ملک بھر میں صحافیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین میاں جاوید لطیف کی زیرصدارت ہوا جس میں میاں جاوید لطیف نے کہاکہ بتایا جائے کہ مطیع اللہ جان کا واقعہ کیوں ہوا اور کرنے والے کون تھے؟صحافیوں کو ایسے واقعات سے کیسے محفوظ بنایا جائے گا؟وزیر اطلاعات نے کہاکہ مطیع اللہ جان کا واقعہ تشویشناک واقعہ ہے تاہم مطیع اللہ جان خیریت سے اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ معاشرے میں قلمکاروں کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق ہیں۔ انہوںنے کہاکہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے،اللہ کا شکر مطیع اللہ جان گھر پہنچ گئے ہیں ، ولی بابر تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ انہوںنے کہاکہ ملک بھر میں صحافیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ وزیراطلاعات نے کہاہک ہماری کوشش ہے کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کریں گے تاکہ وہ بلا خوف و خطر فرائض سرانجام دے سکیں،امید کرتا ہوں آئندہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔
وزیراطلاعات نے کہاکہ میرے اپنے گھر میں تین بار چوری ہوچکی،چیزیں ہوجاتی ہیں۔ و زیر اطلاعات نے کہاکہ سندھ میں صحافی عزیز میمن کو قتل کردیا گیا تھا،اسلام آباد ہی نہیں ملک بھر کے صحافیوں کا تحفظ ضروری ہے۔اجلاس کے دور ان ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد ڈاکٹر مصطفی نے بتایاکہ ڈی آئی جی آپریشنز کی سربراہی میں قائم کمیٹی مطیع اللہ جان کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں ،پولیس کو واقعہ کی اطلاع تین بج کر بیس منٹ پر ہوا ۔
مقدمہ کا اندراج کرکے سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کرکے جیو فینسنگ کی ۔ انہوں نے کہاکہ مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کریں گے اور اس کی روشنی میں تحقیقات آگے بڑھائیں گے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میاں جاوید لطیف نے اسلام آباد پولیس کو مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں کو 15 دن میں گرفتار کرنے کی ڈیڈلائن دے دی۔ میاں جاوید لطیف نے کہاکہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی وجوہات سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔ ایس پی انویسٹی گیشن نے کہاکہ مطیع اللہ جان کے بیان سے بہت سی چیزیں واضح ہوں گی۔
ناز بلوچ نے کہاکہ مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے والوں نے خود ہی چھوڑ دیا تو اسلام آباد پولیس کا کیا کردار ہے۔ ایس پی انویسٹی گیشن نے کہاکہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے بعد تمام اضلاع کو اطلاع دی گئی،مطیع اللہ جان کی گاڑی سے کوئی فنگر پرنٹ نہیں مل سکے ہیں۔ مریم اور نگزیب نے کہاکہ مطیع اللہ جان کے اغوا کا واقعہ قابل مذمت اور حیران کن ہے،قائمہ کمیٹی اطلاعات صحافیوں کے تحفظ کے قانون کی منظورء کا عمل تیز کرنے کی ہدایات جاری کرے۔ انہوںنے کہاکہ مطیع اللہ جان کی اہلیہ کے کنفرم کرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس کو اطلاع دو گھنٹے بعد کیوں ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیوں کیا گیا سب کو معلوم ہے۔ انہوں نے کہاکہ مطیع اللہ جان 14 گھنٹے تک اغوا رہے اسلام آباد پولیس کیا کررہی تھی،صحافیوں کے تخفظ کے لیے قانون سازی بہت ضروری ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہاکہ قانون سازی کے لیے ٹائم لائن مقرر کی جائے۔ نفیسہ شاہ نے کہاکہ اسلام آباد سے دن دیہاڑے صحافی کا اغوا شرمناک ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر مطیع اللہ جان وزیراطلاعات یا حکومت کی کوشش سے آیا ہے تو اس کے لیے کیا بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ سنسر شپ کی جارہی ہے۔
شبلی فراز نے کہاکہ چیئرمین نے تکلف میں مجھے بازیابی کا کریڈٹ دیا۔ شبلی فراز نے نفیسہ شاہ کو جواب دیاکہ میں نے مطیع اللہ جان کی بازیابی میں کردار کے حوالے سے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ ڈاکٹر مصطفی نے بتایاکہ مطیع اللہ جان کا جو موبائل اغوا کار ساتھ لے گئے تھے وہ بند ہے ،موبائل فون کی لوکیشن ابھی نہیں ملی ۔ انہوں نے کہاکہ موبائل لوکیشن کے لئے معاملہ تکنیکی ٹیم کی خدمات لی گئی ہیں۔ میاں جاوید لطیف نے کہاکہ آپ کس دور کی بات کررہے ہیں،آج تو موبائل بند بھی ہوجاتا ہے تو بھی لوکیشن کا پتہ چل جاتا ہے۔
میاں جاوید لطیف نے کہاکہ پندرہ روز میں آئی جی اسلام آباد مکمل رپورٹ دیں ۔وفاقی وزیراطلاعات شبلی فراز نے بتایاکہ آخری نیوز چینل 28 کروڑ اور انٹرٹینمنٹ چینل 5 کروڑ کا نیلام ہوا ،انٹرٹینمنٹ چینل کے لائسنس پر کوئی نیوز چینل کیسے چلا سکتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کیا کسی کو پانچ کروڑ میں اٹھائیس کروڑ کے مزے لینے دئیے جا سکتے ہیں ،کیا موٹرسائیکل کے لائسنس پر کوئی ہوائی جہاز چلا سکتا ہے ،ہمیں قانون کی حکمرانی کی حمایت کرنی چاہیے۔مریم اور نگزیب نے کہاکہ وہ لسٹ منگوائی جائے کہ کتنے نیوزچینل ، انٹرٹینمنٹ کے لائسنس پر چل رہے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے کہاکہ تمام چینلز کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہر کام شفاف طریقے سے ہونا چاہیے،24 چینل کو بند کرنے کے لیے پروسیجر فالو نہیں کیا گیا تھا۔