اسلام آباد(آن لائن)ملک میں گزشتہ 15سال سے زائد عرصے میں آٹو صنعت میں 61کھرب83ارب17لاکھ اور20ہزار روپے کے غبن کا انکشاف ہوا ہے جس میں 2006ء کے ایس آر او(1) 655کاغلط استعمال کیا گیا۔ذرائع کے مطابق ای وی ٹی سی و پی ای وی پی ایم ٹی ایم ٹی اے (پیوپمٹا) کی جانب سے وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے مشیروں و وفاقی سیکرٹریز کے نام لکھے گئے خط میں اپنے وزیراعظم،
وزراء، مشیروں اور سیکرٹریز اور چیئرمین ایف بی آر اور ملک کے احتساب کے ذمہ دار اداروں سے کہا گیا ہے کہ اس سکینڈل کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں جو کرپشن کے سمندر اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہے۔ خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ملک میں حالیہ چینی، گندم اور آٹا سکینڈل کے بعد آٹو انڈسٹری کا یہ سکینڈل نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کے وزراء اور بیوروکریٹس کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے جو کہ ملک کی بہتری کیلئے اچھے کام کررہے ہیں۔اس سکینڈل سے آٹو مافیا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بے نقاب ہوئی ہے، لوٹ مار کا یہ سلسلہ 2006ء سے جاری ہے اور کوئی پوچھ گچھ نہیں ہورہی۔پندرہ سال میں 61کھرب83ارب17لاکھ اور20ہزار روپے کا یہ سکینڈل سال 2006 کے ایس آر او(1) 655 کے غلط استعمال کی عکاسی کرتا ہے۔اس شعبے میں آٹو ڈیلیشن پروگرام بند ہو چکے ہیں۔درآمدی رعایات اور دیگر ٹیکس کی مد میں ریلیف کی وجہ سے مقامی سطح پر گاڑیوں کی کوئی تیاری نہیں ہو پا رہی اور ای ڈی بی و اے آئی بی سی کی جانب سے دیئے گئے فوائد اور مراعات کا غلط استعمال اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مافیا ریگولیٹری اداروں کو سہولت بہم پہنچنے کی اجازت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے ایندھن بیس غیر موزوؤں ٹیکنالوجی نئی ٹیکنالوجیز کی تیاری اور انہیں متعارف کرانے کی راہ میں حائل ہورہی ہے۔نومبر2019ء میں
کابینہ کی جانب سے منظور کردہ ای وی پالیسی کو آٹو لابی کی ایماء اور ضروریات پر مبنی ای ڈی بی کی جانب سے تیار کردہ جوابی پالیسی مسودہ (اے ڈی پی2020-2025) کے ذریعے روندا جارہا ہے جبکہ حکومت میں شامل بعض مشراء کاروباری ساتھیوں کو خوش کرنے کے لئے مسودے کی حمایت کررہے ہیں۔50سال گزر گئے لیکن آٹو صنعت 40سے 45فیصد مقامی پارٹس سے باہر نہیں نکل پا رہی۔اس کی بنیادی وجہ سے ایس آر او
655,2006 ہے، پچاس سال پرانے موٹرسائیکل کے ماڈل 95فیصد مارکیٹ میں موجود ہیں۔پاکستان میں کوئی بھی اتھارٹی اس کے غلط استعمال کو چیک نہیں کررہی اور کرپشن اور لوٹ مار کو بڑھنے دیا جارہا ہے۔اجارہ داری کی بنیاد پر گاڑیوں کی قیمتیں عالمی سطح اور خطے کے مقابلے میں دو سے تین گنا بڑھ چکی ہیں۔صارفین کی حفاظت اور سکون پر متواتر سمجھوتہ کیا جارہا ہے، خریدو فروخت کرنیوالوں کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں
دی جارہی اور اس ایس آر او کے ذریعے اپنی مرضی چلائی جارہی ہے۔ای ڈی بی اور اے آئی ڈی سی جو کہ انڈسٹری کے ریگولیٹرز ہیں آٹو لابی کے مفادات کے تحفظ کے لئے ان کی پاکٹ باڈیز بن چکے ہیں۔ای ڈی بی اور اے آئی ڈی سی کی تشکیل خود ہی سوالیہ نشان ہے۔سوداگر ایسوسی ایشن، کسٹمز اور کمپیٹیشن /ٹیرف کمیشن کی جانب سے خرابی کا پتہ چلانے کے لئے تمام تر کوششوں پر کوئی کارروائی نہیں ہورہی اور شکایات کو ردی کی
ٹوکری کی نذر کیا جارہا ہے۔آٹو صنعت کو بچانے کے لئے مافیا کے خلاف فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔اس ضمن میں سفارشات تجویز کی جاتی ہیں جس کے تحت اس پورے سکینڈل کو منظرعام پر لانے کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے،ایف آئی اے اور نیب کو فوری طور پر انکوائری کی ہدایات جاری کی جائیں، ماہر ٹیکنوکریٹس اور آٹو شعبے سے وابستہ ماہرین، مالیاتی ماہرین اس تکنیکی نوعیت کے جرم کو سامنے لاسکتے ہیں اور اس سکینڈل کو سامنے لانے میں ملک کے پروفیسرز، پی ایچ ڈی حضرات اور انجینئر یونیورسٹیاں مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔اس کے علاوہ آٹو صنعت سے متعلقہ تمام دستاویزات جو سرکاری اداروں، کسٹمز اور سیلز ٹیکس سے متعلقہ ہیں، کو سیل کیاجائے، یہ ایک وائٹ کالر جرم ہے جس کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔