اسلام آباد(نیوز ڈیسک) یورپی یونین نے بحیرہ روم میں انسانی اسمگلروں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کا مقصد انسانی تجارت کو روکنا، یورپی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور انسانی جانوں کو غرقابی سے بچانا ہے۔یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی طرف آنے والے تارکین وطن کی تعداد اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ اس خطے میں اسے تاریخی نقل مکانی قرار دیا جا رہا ہے۔ انسانی اسمگلر بھاری رقوم کے عوض غریب ممالک کے باشندوں کو بحیرہ روم کے راستے یورپ تک پہنچاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کشتیوں پر گنجائش سے کئی گنا زیادہ افراد کو سوار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی کشتیاں پانی میں ڈوب جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں تارکین وطن ہلاک ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی خاتون سربراہ فیڈریکا موگیرینی کا کہنا تھاکہ یہ آپریشن مہاجرین کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ آپریشن ان اسمگلروں کے خلاف ہے، جو ان کی زندگیوں سے کھیل کر پیسہ بنا رہے ہیں۔“یہ آپریشن تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں اسمگلروں کی نگرانی ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں گی۔ اس پہلے مرحلے کا حتمی مقصد تارکین وطن کو یورپ کی طرف لانے والی ناموزوں کشتیوں اور دیگر سامان پر قبضہ کرنا ہے۔بعد کے مراحل پر فی الحال عمل درآمد روک دیا گیا ہے کیونکہ اس کے لیے یورپی یونین کو لیبیائی حکام کی حمایت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے بھی اجازت کی ضرورت ہے۔ دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ممکنہ طور پر لیبیا کے ساحلوں پر کارروائیاں کرنا شامل ہے۔ لیبیا کے ساحلی علاقے وہ مرکزی مقام ہیں، جہاں سے اسمگلر تارکین وطن کو یورپ کی طرف بھیج رہے ہیں۔یورپی یونین کی طرف سے شروع کیے جانے والے اس مشن کا ہیڈکوارٹر روم میں بنایا گیا ہے اور اس مشن کی کمانڈ اٹلی کو سونپی گئی ہے۔ اس مشن پر پہلے چودہ ماہ کے دوران یورپی یونین تقریبا? 11.82 ملین یورو خرچ کرے گی۔ پہلے فیز کے دوران یورپی یونین کے بارہ ممالک اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایک یورپی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ اس مشن میں پانچ بحری جہاز، دو آبدوزیں، تین جاسوس طیارے، دو ڈرون اور تین ہیلی کاپٹر شامل کیے جائیں گے۔ ابتدائی طور پر روم کے ہیڈکوارٹر اور سمندر میں تقریبا ایک ہزار مرینز تعینات کیے جائیں گے۔یورپی یونین کا یہ مشن تارکین وطن سے متعلق اس جامع منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت پورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تمام رکن ملکوں میں تقسیم کا معاملہ بھی طے کیا جانا ہے، تاہم فی الحال اس معاملے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔اس بارے میں یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی کا کہنا تھا کہ رکن ملکوں کی طرف سے مہاجرین کے معاملے میں صرف یکجہتی کا اظہار اس معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں ہے بلکہ ان کو مہاجرین کی ذمہ داری اٹھانا ہو گی۔ ان کا کہنا تھا انہیں امید ہے کہ اس سلسلے میں رواں ہفتے یورپی رہنما انہیں ’موثر جواب‘ دیں گے۔