کراچی(این این آئی)سندھ کابینہ نے سرکاری اداروں میں خواجہ سرائوں کیلئے0.5 فیصد نوکریوں کا کوٹہ مقرر کرنے اور پاکستان ایگریکلچرل اینڈ اسٹوریج سروسز کارپوریشن(پی اے ایس ایس سی او)سے ایک لاکھ ٹن گندم خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔
جبکہ وزیراعلی سندھ نے خواجہ سرا کمیونٹی کو سرکاری نوکریوں کی درخواست کیلئے کاغذات تیار رکھنے کی ہدایت بھی کی ہے۔بدھ کووزیراعلیٰ ہائوس کراچی میں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں چیف سیکرٹری، صوبائی وزرا، مشیر، آئی جی اور دیگرافسران شریک ہوئے۔اجلاس کے ایجنڈے میں امن و امان پر بریفنگ، خواجہ سراں کی سرکاری نوکریوں میں0.5 فیصدکوٹہ، امن ہیلتھ سروس، انجرڈ پرسن کمپلسری میڈیکل ٹریٹمنٹ ایکٹ، انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن ایکٹ کی منظوری، متبادل اور پائیدار انرجی پالیسی سمیت دیگر امور شامل تھے۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے خواجہ سرا کمیونٹی کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرکاری نوکریوں کی درخواست دینے کے لیے اپنے کاغذات تیار رکھیں۔انہوں نے کہاکہ مجھے خواجہ سراکمیونٹی کو مین اسٹریم میں لانا ہے، ہم ان کو معاشرے کے کارآمد لوگ بنانا چاہتے ہیں۔وزیراعلی سندھ نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ میں آج خواجہ سرائوں کو کابینہ کی طرف سے ان کے لیے کوٹہ مقرر ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔انہوں نے خواجہ سراکمیونٹی کو سرکاری نوکریوں کی درخواست دینے کے لیے کاغذات تیار رکھنے کی ہدایت بھی کی ۔
وزیر اعلی سندھ نے خواجہ سراکمیونٹی کو اپنی تعلیم پر بھی توجہ دینے کی ہدایت دی ہے۔سندھ کابینہ نے پاکستان ایگریکلچرل اینڈ اسٹوریج سروسز کارپوریشن(پی اے ایس ایس سی او)سے ایک لاکھ ٹن گندم خریدنے کی منظوری دیدی جس کی قیمت 844.50 فی 100 کلوگرام بیگ ہوگی۔ سندھ کابینہ نے گندم کی اشو پرائس 3450 روپے فی 100 کلوگرام بیگ مقرر کردی۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ میں آٹے کی قیمت میں کمی لانا چاہتا ہوں۔
ہم کم سے کم غریب عوام کو روٹی تو سستی دیں۔دوران اجلاس انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کلیم امام نے کابینہ کو سیکورٹی صورتحال اور محکمہ پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی پولیس کے خلاف 2018 میں 6 احتجاج ہوئے اور اس سال ایک احتجاج ہوا ہے۔آئی جی پولیس نے بتایا کہ کرائم انڈیکس میں کراچی 2014 میں چھٹے اور اب 2019 میں 70 ویں نمبر پر ہے، جس سے ظاہر ہوا ہے کہ کراچی پر امن شہر بن گیا ہے۔
انہوں نے بتایاکہ اغوا کے واقعات میں 87 فیصد کمی آئی ہے، فور ویل وہیکل کی اسنیچنگ981 سے کم ہوکر اب 208 رہ گئی ہے، 317 گینگس برسٹ کئے اور 621 کرمنلز گرفتار کئے گئے۔انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائم کے اسباب میں نشے کے عادی، بیروزگار، غیر قانونی تارکین وطن افراد ہیں، آئی جی پولیس نے بتایا کہ عوام میں کیس رجسٹر کرنے کا رحجان بہت کم ہے، گزشتہ ہفتے 1063 مختلف شکایت موصول ہوئیں لیکن صرف 14 شکایت کنندہ افراد مقدمے رجسٹرڈ کرنے پر راضی ہوئے۔
آئی جی پولیس نے ٹریفک خلاف ورزی کے حوالے سے بتایا کہ 2019 میں ایک لاکھ 56 ہزار 580 گاڑیوں نے ٹریفک کی خلاف ورزی کی اور اس مد میں 766 ملین روپے جرمانے کی مد میں جمع کیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 12 ہزار 946 مختلف قسم کی شکایات جن میں گھریلو تشدد، ہراساں کرنا، پولیس کے خلاف شکایتیں وغیرہ موصول ہوئی ہیں جن میں سے 90 فیصد شکایات کا ازالہ کیا جا چکا ہے۔
آئی جی پولیس نے بریفنگ میں کہا کہ ٹریفک فائن ایوارڈ کے لیے پولیس کیسیکریٹری فنانس نے 15-2014 اور 16-2015 کے لیے 245 ملین روپے ریلیز کر دیئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آئیس کے نشے کا 2018 میں 0.74کلو گرام ریکورہوا اور 2019 میں 132.764ریکور کیا گیا، جس پر وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے شہر میں اتنی بڑی مقدار میں آئس آجانے پر تشویش کا اظہار کیا۔بریفنگ کے دوران وزیراعلی سندھ نے آئس اور دیگر نشے کی اشیا اور اس دھندے میں ملوث لوگوں کے خلاف شدید کارروائی کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ آئس کا نشہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بڑا نقصان دہ ہے۔
وزیراعلی سندھ نے اسٹریٹ کرائم پر بھی مزید کنٹرول کرنے کی ہدایت دی جس پر ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا کہ اچھے ایس ایچ اوز رکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم میں کمی آ رہی ہے۔وزیراعلی سندھ نے آئی جی پولیس سے سوال کیا کہ کراچی میں 3 ڈی آئی جیز اور 7 ایس ایس پیز ہیں، میں نے کبھی کسی کو لگانے کی سفارش کی ہے؟ انہوں نے کہاکہ میں پولیس کی بدلی اور مقرری کیلئے کبھی سفارش نہیں کرتا۔مراد علی شاہ نے کہاکہ جب ہماری زیرو مداخلت ہے تو مجھے بہترین امن و امان کی صورتحال چاہیے۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ جو اچھے پولیس کے ایس ایچ اوز، ڈی ایس پیز کام کر رہے ہیں ان کو میں ریوارڈ دونگا، جبکہ جن ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز نے بہتر کام نہیں کیا اور ان کے ایریا میں کرائم ہوتا ہے، نشہ آور چیزیں بکتی ہیں میں ان کے خلاف کارروائی کرونگا۔اس موقع پر امتیاز شیخ نے بتایا کہ شکارپور میں کچھ جعلی ایف آئی آر کے واقعات سامنے آئے ہیں جس پر وزیراعلی سندھ نے جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے کے معاملے پر انکوائری کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔