اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بڑے ممالک نے انسانیت کو مارنے کے لئے ہزاروں طاقتور ایٹمی ہتھیار تیارکر رکھے ہیں۔ اس دوڑ میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں ۔ 13900 ایٹمی ذخائر میں سے 93 فیصد امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔ ان دونوں ممالک نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے۔
باقی ماندہ 7 ممالک کے ذخیرے میں بارہ سو ایٹم بم محفوظ ہیں۔2025ء میں فرانس کے پاس 300، برطانیہ کے پاس 215، اسرائیل کے پاس 80 اور چین کے پاس 270 ایٹمی ہتھیار ہو سکتے ہیں۔ جبکہ 2019ء میں پاکستان اور بھارت کے پاس بالتریب 150 اور 140 ایٹمی ہتھیار تو ہونا چاہیے تھے۔ روزنامہ دنیا کے مطابق 2025ء تک دونوں ممالک کے اس ذخیرے میں 200 سے 250 تک مزید ایٹمی ہتھیار شامل ہو جائیں گے۔ جن میں وہ ایٹم بم بھی شامل نہیں جن کو ’’پائو بھر ‘‘ کے ایٹم بم کہا جا رہا ہے۔ ’’بلیٹن آف اٹامک سائنسز‘‘ کے مطابق پاکستان پلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے 130 سے 140 تک ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی ایٹمی جنگ کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے دنیا کی چار بڑی یونیورسٹیوں (یونیورسٹی آف کالریڈو، یونیورسٹی آف بولڈڑ، رٹگرز یونیورسٹی، یو ایس نیشنل سنٹر برائے ایٹمی تحقیق) کے سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھے۔ان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت جیسی چھوٹی ایٹمی طاقتوں کے مابین ایٹمی جنگ چھڑتے ہی پانچ کروڑ سے ساڑھے بارہ کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔ رٹگرز یونیورسٹی میں شعبہ ماحولیاتی سائنس منسلک ایک مصنف ایلن روباک کے خدشے کے مطابق دس روزہ پاک بھارت ایٹمی جنگ 2025ء میں چھڑ سکتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ سابقہ تخمینے غلط ثابت ہو سکتے ہیں ۔شہر کے شہر جل اٹھیں گے، ان کے دھویں سے الگ نقصان ہو گا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ جنگ مسلط ہونے کی صورت میں پاکستان بھارت پر 250 ایٹمی ہتھیار چلا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کل 400 سے 500 تک ایٹمی ہتھیار چلا سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ایٹمی تجربات کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کچھ بم ہیروشیما پر چلائے گئے ایٹم بم سے بھی چھوٹے یعنی 12 کلوٹن کے ہیں۔
45 کلو ٹن تک سے لے کر جدید کئی سو ٹن کلوٹن کے ایٹمی ہتھیار بھی ذخیرے کا حصہ ہیں۔تاہم دونوں ممالک کے پاس زیادہ تر ایٹمی ہتھیار 15،15 کلو ٹن کے ہیں۔ غیر ملکی ماہرین کے مطابق پہلے مرحلے میں چھوٹے بم ہی چلائے جائیں گے۔ یہ اس قسم کے ’’لٹل بوائے ‘‘ٹائپ بم ہو سکتے ہیں جیسے بم امریکہ نے ہروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے تھے۔بھارت کے 400 شہر بڑے ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر چار سو سے زیادہ ہیں۔
یہ سب کے سب ہمارے نشانے پر ہیں۔ پاکستان 9 مقامات سے بھارت کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ بھارت کی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان زمین سے فضا میں مار کرنے والے آٹھ اقسام کے میزائل کی مدد سے بھی ایٹمی ہتھیار چلا سکتا ہے جبکہ میراج اور ایف سولہ بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔جہازوں کی مدد سے پاکستان بھارت اندر 18 سو کلومیٹر تک کسی بھی شہر پر بم گرا سکتا ہے جبکہ میزائلوں کی مدد سے بھارت کے اندر 2750 کلومیٹر کی رینج ہر شہر ہمارے نشانے پر ہے۔
پاکستان اپنے دو اقسام کے کروز میزائلوں کی مدد سے بھی بھارت کے اندر کئی سو کلومیٹر تک کسی بھی شہر کو نشانہ بنایا سکتا ہے۔ بھارت کا چپہ چپہ ہمارے دو مار میزائلوں کی رینج میں ہے۔بم کے پھٹنے کے بعد دس سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں بھارت کے اوپر آگ کا گولہ نمودار ہو گا۔ ہر طرف سرخی سرہی سرخی پھیل جائے گی، غروب آفتاب جیسی سرخی۔ اس کے تابکاری ذرات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا گھمبیر دباؤ دس سیکنڈ کے اندر اندر 2 کروڑافراد کو جلا کر راکھ کر دے گا۔
ایک سو کلوٹن کے ایٹم بم سے جانی نقصان اس سے چار گنا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اموات کا پہلا مرحلہ ہو گا۔ اگر پاکستان 150 اور بھارت 100 ایٹم بم استعمال کرتا ہے تو 5 کروڑ سے 15 کروڑ تک انسان جل کر راکھ ہو جائیں گے۔عالمی ماہرین نے کلکتہ اور ممبئی کی مثالیں بھی دی ہیں جہاں آبادی کا دباؤ 65 ہزار فی مربع میل سے بھی زیادہ ہے۔ ان گنجان آباد بھارتی شہروں کو پاکستان کا ’’لٹل بم‘‘ بھی نیست ونابود کر سکتا ہے۔
ورنہ امریکہ کے میگا ٹن ایٹم بم منٹوں میں میگا شہرکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔ 1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان پر گرائے جانے والے نیپام بم (آگ لگانے والے) سے ناگاساکی پر ایٹم بم سے بھی زیادہ جانی نقصان ہوا تھا، ہر طرف آگ ہی آگ دکھائی دیتی تھی۔اگر بھارت نے ایٹم بم چلایا تو اس کے فوری اثرات چین، روس، افغانستان، اور ایران اور عرب ممالک میں بھی پھیل جائیں گے۔ جنوب مشرقی ایشیا اور عرب ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
چرنوبائل کے تابکاری مادوں نے یوکرائن کے راستے مغربی یورپ کو بھی متاثر کیا تھا، کل 77 ہزار مربع میل میں کم از کم ساڑھے چھ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔محقق گزماڈو نے انکشاف کیا کہ ایٹم بم کے چلتے ہی ایٹمی آگ بھڑک اٹھے گی۔ دنیا بھر میں دھواں پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ کچھ حصوں میں فوری اور باقی ماندہ حصوں کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ایٹمی دھواں افق کی بلندیوں پر جا کر دور دور تک پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ یہ ایٹمی ذرات ہوا کے دوش پر سفر کریں گے.
جہاں بھی جائیں گے، انسانیت کو ملیا میٹ نہیں تو زندگی محال ضرور بنا دیں گے۔علاقے کا ایکو سسٹم پلک جھپکنے میں تباہ ہو جائے گا، ہوا سے آکسیجن ایسے غائب ہو جائے گی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ آکسیجن کے ختم ہوتے ہی نباتات اور حیوانات، سب دم گھٹنے سے مرنا شروع ہو جائیں گے۔بھوک بڑھنے میں اضافہ ہو جائے گا۔ایٹمی ذرات کے زیر اثرموسمیاتی تبدیلیوں کا عمل ایک سال سے دس سال تک جاری رہ سکتا ہے۔
جوں جوں ایٹمی ذرات آسمان میں پھیلتے جائیں گے بیماریوں اور زخموں سے بھی لوگ مرنا شروع ہو جائیں گی۔ایٹم بم کے چلتے ہی آسمان پر 50لاکھ ٹن صاف شفاف ذرات کے چھا نے سے آسمان پوڈر میں لپٹا ہوا نظر آئے گا۔ ایک خطرناک اور جان لیوا ’’پوڈر‘‘ میں ۔ یہ اگلے 25برس تک دنیا بھرمیں پھیل سکتا ہے، اس پر قابو پانا ناممکن ہو گا۔سورج کی حرارت میں 20 سے 35 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ دنیا برف کے دور (آئس ایج) میں واپس چلی جائے گی۔
ایٹم بم سے 1.60 کروڑ ٹن سے 3.6کروڑ ٹن تک کاربن پیدا ہوگا ، یہ ذرات آسمان میں جمع ہوجائیں گے۔جہاں سے چند ہفتوں کے اندر اندر دنیا بھر میں پھیل جائیں گے۔ایٹمی بادل ایٹمی ذرات اوزون کا 30 سے 50 فیصد تک خاتمہ کر دیں گے جس سے خطرناک الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین تک پہنچنے لگیں گی۔ ’’سن برن ‘‘ اور سرطان کے امراض پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔آج جو درخت دس سال پھل دے سکتا ہے ایٹمی جنگ چھڑنے کی صورت میں اس درخت کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ رہے گی۔ سمندر میں اگنے والے پودے اور سمندری حیات بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ان کی عمر میں 5 سے 15 فیصد تک کمی ہو گی۔ معاشی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ پوری دنیا کساد بازاری کی لپیٹ میں آ جائے گی۔