کراچی (نیوزڈیسک)بھارتی وزیراعظم نریندرامودی نے کون سا ایسا انکشاف کر دیا کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کو عالمی برادری سے اس کا نوٹس لینے کی درخواست کرنا پڑ گئی؟بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سات جون کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1971 میں بھارتی فوج اور مکتی جودھا ساتھ ساتھ لڑے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش کی ترقی پر بھارت بھی ناز کرتا ہے کیونکہ آپ کی آزادی کے لیے بھارتی سپاہیوں کا بھی خون بہا ہے۔‘اس پر پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ عالمی برادری نریندر مودی کے اعتراف کا نوٹس لے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی تھی، اور اس اعتراف سے پاکستان کا یہ دیرینہ موقف درست ثابت ہوا ہے کہ بھارت نہ صرف پڑوسیوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے بلکہ اس پر فخر بھی کرتا ہے۔میں تب سے خوردبین لگا کے نریندر مودی کے بیان اور پاکستانی دفترِ خارجہ کے ردِ عمل میں یہ عنصر تلاش رہا ہوں کہ مودی نے کون سا ایسا انکشاف کر دیا کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کو عالمی برادری سے اس کا نوٹس لینے کی درخواست کرنا پڑ گئی۔تو کیا پاکستانی دفترِ خارجہ کو 44 برس کسی نے بھی نہیں بتایا کہ 15 اور 16 مارچ 1971 کی درمیانی شب مشرقی پاکستان میں شروع ہونے والے آپریشن سرچ لائٹ کے بعد جب لاکھوں بنگالی سرحد پار مغربی بنگال اور آسام جانے لگے تو دس اپریل کو آزاد بنگلہ دیش کی جلاوطن عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور صدر نذر السلام اور وزیرِ اعظم تاج الدین کی اس آٹھ رکنی حکومت کا پوسٹل ایڈریس آٹھ شیکسپئیر سارانی، کلکتہ تھا۔اور اس جلا وطن حکومت کے وزیرِ دفاع کرنل ایم اے جی عثمانی مکتی باہنی کے بھی چیف آف سٹاف تھے اور آپ کا قیام بھی کلکتہ میں تھا تاکہ آپ مکتی باہنی کی تربیتی نگرانی کر سکیں۔تو کیا 16 دسمبر کو سہ پہر ساڑھے چار بجے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر انڈین آرمی اور مکتی باہنی پر مشتمل اتحادی فوج (مترو باہنی) کے کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے دستخط نہیں ہیں؟کیا طرفہ تماشا ہے کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کو اندرا گاندھی کے بیانات، بنگلہ دیشی سیاستدانوں کی بیسیوں یاد داشتوں، ڈائریوں اور انیس سو اکہتر کے بنگلہ دیش آپریشن میں حصہ لینے والے متعدد بھارتی جرنیلوں اور مکتی باہنی کمانڈروں کے ذاتی تجربات و شواہد پر مبنی کتابوں سے بھارت کے سیاسی، علاقائی و عسکری کردار کا پتہ نہ چل سکاتو کیا اسی شام چھ بجے نئی دہلی میں لوک سبھا کے خصوصی اجلاس میں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے اپنے بیان میں اعتراف نہیں کیا تھا کہ ’ہمارا مقصد بنگلہ دیش کے بہادر عوام اور ان کی مکتی باہنی کو اپنا وطن دہشت کے دور سے آزاد کرانے میں مدد اور اپنی سرزمین کے خلاف جارحیت کی مزاحمت کرنا تھا۔ بھارتی افواج بنگلہ دیش میں ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ نہیں رکیں گی۔‘اور کیا اسی خطاب کے فوراً بعد لوک سبھا کے رکن اور مستقبل کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ’درگا مئیا‘ کا خطاب نہیں دیا تھا؟اور پھر حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے اندرا گاندھی کی تاریخی گراں قدر خدمات پر انھیں بعد از موت سنہ 2011 میں بنگلہ دیش کے اعلی ترین اعزاز ’سوادھنتا سمانونا‘ سے نہیں نوازا؟اور کیا بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والے نریندر مودی نے اٹل بہاری واجپائی کے لیے یہی ’سوادھنتا سمانونا‘ اعزاز حکومتِ بنگلہ دیش سے وصول نہیں کیا؟کیا طرفہ تماشا ہے کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کو اندرا گاندھی کے بیانات، بنگلہ دیشی سیاستدانوں کی بیسیوں یادداشتوں، ڈائریوں اور سنہ 1971 کے بنگلہ دیش آپریشن میں حصہ لینے والے متعدد بھارتی جرنیلوں اور مکتی باہنی کمانڈروں کے ذاتی تجربات و شواہد پر مبنی کتابوں سے بھارت کے سیاسی، علاقائی و عسکری کردار کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کردار کی توثیق ہوئی بھی تو نریندر مودی کے اعتراف سے کہ جن کا 71 کے واقعات سے دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ایک صاحب کسی راہ گیر سے ٹکرا گئے تو انہوں نے طیش میں کہا: ’ابے گینڈے کے بچے نظر نہیں آتا؟‘ اور آگے چل پڑے۔ ایک برس بعد اسی راہ گیر نے ان صاحب کو کہیں دیکھا تو گریبان پکڑ کے پوچھا: ’سالے تو نے مجھے ایک سال پہلے گینڈے کا بچہ کیوں کہا تھا؟‘ صاحب نے گریبان چھڑاتے ہوئے پوچھا: ’میاں تمہیں وہ بات سمجھنے میں پورا سال لگ گیا؟‘ راہ گیر نے کہا ’ہاں، کیونکہ میں نے پہلی بار گینڈا کل ہی دیکھا ہے۔۔۔ مگر تو نے مجھے گینڈے کا بچہ کہا کیوں!‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں