بیجنگ(آن لائن )چین کے دورے پر بیجنگ میں موجود افغان طالبان کے وفد نے چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان سے ملاقات کی جس میں امریکا کے ساتھ امن مذاکرات پر بات چیت کی گئی. چینی نمائندے سے یہ اہم ملاقات امریکا اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی ایک ملاقات کو ا مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آخری لمحات میں منسوخ کیے جانے کے بعد ہوئی ۔
قبل ازیں افغان طالبان امریکا کی جانب سے مذکرات ختم کرنے کے بعد روس کا دورہ کرچکا ہے اور مستقبل میں افغان طالبان کے ترکی اور ایران کے دورے متوقع ہیں.ماہرین کے مطابق افغان طالبان مستقبل قریب میں افغانستان میں حکومت قائم کرنے کا اعلان کرنے جارہے ہیں اور اس مرتبہ روس ایران اور چین کی مدد سے شمالی اتحاد کے قبائل بھی طالبان کی حکومت کا حصہ ہونگے جبکہ طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دوطاقتور مستقل رکن ممالک روس اور چین سمیت ترکیایرانپاکستان اور قطر سمیت کئی ملکوں کی سفارتی حمایت حاصل ہوگی.ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے سے انحراف کرکے امریکا نے افغانستان سے اپنی باعزت واپسی کا موقع گنوادیا ہے اور اب امریکا کو ایک شکست خوردہ طاقت کے طور پر افغانستان سے بھاگنا پڑے گا جس کے بعد وہ باضابط طور پر دنیا کی سپر پاور ہونے کا اپنا اعزازبھی کھو بیٹھے گا جس کو بچانے کے لیے وہ 18سال سے افغانستان کی سنگلاخ چٹانوں پر اپنا سرپٹخ رہا ہے.امریکا افغان جنگ پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ روس اور چین کی خفیہ چالوں کو امریکا سمجھنے میں ناکام رہا اور امریکا کے طاقتور طبقات نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے عین اس وقت معاہدے کو سبوتاژ کروایا جب 24گھنٹوں کے بعد اس پر دستخط ہونے جارہے تھے امریکا کے انجراف سے دنیا میں اس تاثرکو بھی تقویت ملی کہ وائٹ ہاس بے بس تماشائی ہے امریکا کی قسمت کے فیصلے
کرنے والی طاقتوں کا مرکزوائٹ ہاس نہیں بلکہ کہیں اور ہے.افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ وہ مجوزہ طے شدہ معاہدے کی کاپی دنیا بھر کے میڈیا کو جاری کریں گے تاکہ دنیا جان سکے کہ طالبان امن چاہتے تھے اور جنگ کا خاتمہ کرنے کے خواہشمند تھے مگر امریکا کے طاقتورطبقے اتکے ذاتی مفادات کے سامنے صدر ٹرمپ کو سرنڈرہونا پڑا. یہ بھی کہا جارہا ہے۔
امریکا کی خواہش ہے کہ امریکی دستوں کی مددکے لیے بھارت اپنی فوجیں افغانستان میں اتارے اس کا اظہار صدر ٹرمپ کئی بار کرچکے ہیں مگر بھارت افغانستان میں ٹھیکوں اور تجارت تک بات کو محدود رکھنا چاہتا ہے کیونکہ بھارت کو علم ہے کہ افغانستان میں فوجیں اتار کر وہ طالبان کو بھارت کے اندر کاروائیاں کرنے کا جواز فراہم کرئے گا .بھارتی وزیراعظم کو امریکا کے دورے کے دوران غیرمعمولی
اہمیت اسی وجہ سے دی جارہی ہے کہ وہ افغانستان میں امریکا کی فوجی مدد کے لیے آمادہ ہوجائیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چند مہینوں میں یہی مودی امریکا کے زیرعتاب ہونگے . دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ ملاقات کے لیے طالبان وفد بیجنگ آیا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کیا۔
انہوں نے بتایا کہ چینی نمائندہ خصوصی کا کہنا ہے کہ امریکا طالبان سمجھوتہ افغان مسئلے کے پر امن حل کے لیے ایک اچھا فریم ورک ہے اور وہ اس کی حمایت کرتے ہیں.اس ضمن میں طالبان وفد کی نمائندگی کرنے والے ملا برادر نے بتایا کہ انہوں نے بات چیت کی اور ایک جامع معاہدے تک پہنچ گئیاب اگر امریکی صدر اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتے اور اپنا وعدہ توڑتے ہیں تو افغانستان میں کسی قسم کے
خونریزی کے ذمہ دار وہی ہوں گے. یہ بات مد نظر رہے کے امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے.معاہدہ ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر امریکا افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا
لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گرہوں کے لیے پناہ گاہ نہیں ہوگا. تاہم 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کی ہلاکت پر یہ مذاکرات منسوخ کردیے تھے.