لاہور( این این آئی )سکھ مذہب چھوڑ کر مسلمان لڑکے سے شادی کرنے والی لڑکی اپنے خاوند کے ہمراہ تحفظ کیلئے لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئی ،درخواست میں وفاقی حکومت، پنجاب حکومت ، آئی جی پنجاب اور لڑکی کے گھر والوں کو فریق بنایا گیا ہے۔نو بیاہتا جوڑے نے ندیم سرور ایڈوکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ۔ لڑکی نے موقف اپنایا کہ 28 اگست کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا
اور نام عائشہ رکھا ۔اپنی مرضی سے حسان سے پسند کی شادی کی ہے اورکسی نے مجھے اغوا ء نہیں کیا۔میری عمر 19 سال ہے ،اپنا اچھا برا سوچ سکتی ہوں اوراسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کہ اسلام قبول کیا ہے۔میرے والد اور بھائیوں کی جانب سے مجھے اور میرے شوہر کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔پولیس روز میرے شوہر حسان کے گھر پر چھاپے مار رہی ہے اور ہراساں کرنے سمیت گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔امریکہ اور بھارت کی ایما ء پر قومی اور بین الاقوامی میڈیا پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔لاہور ہائیکورٹ پولیس کو مجھے اور میرے شوہر کو ہراساں کرنے سے روکے اورآئین کے ارٹیکل 9 کے تحت وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور پولیس کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے ۔درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ پیمرا کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے حوالے سے چلنی والی بے بنیاد خبروں کی بندش کا حکم بھی دیا جائے ۔