کراچی (این این آئی)گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ جنگی صورت حال کے حوالے سے پالیسی مرتب کرلی گئی ہے۔ ملکی معیشت اب بہتری کی طرف جارہی ہے۔۔ جیسے ہی سرمایہ کاروں کو یقین ہوگا تو معاشی نمو بڑھے گی۔ شرح سود میں تیزی سے اتار چڑھاؤ کے باوجود نجی سرمایہ کاری میں کوئی فرق نہیں پڑا چند دیگر عوامل کی وجہ سے نجی شعبہ سرمایہ کاری نہیں کررہا ہے۔
آئی ایم ایف کا رواں مالی سال کے لئے مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک رہنے کا اندازہ ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی رپورٹ کو دیکھتے ہو شرح سود دیکھیں تووہ زیادہ نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر فیڈریشن کے صدر انجینئر دارو خان اچکزئی، ایس ایم منیر، صدر فیڈریشن، مرزااختیاز بیگ،خالد تواب ودیگر بھی موجود تھے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملکی ترقی کا محور پرائیوٹ سیکٹر ہے۔ہمیں پرائیوٹ سیکٹر کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ اسٹیٹ بینک مالیاتی پالیسی دے رہا ہے۔ حکومت ماحول فراہم کررہی ہے۔ باقی ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ شرح تبادلہ کو کرنٹ اکاونٹ خسارے کے باوجود منجمد رکھا گیا۔ اس پالیسی سے زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے۔2014 سے 2017 کے دروان خسارہ تیزی سے بڑھتا رہا۔ پاکستان میں پہلی بار کرنٹ اکاونٹ خسارہ دو ارب ڈالر ماہانہ تک پہنچ گیا تھا۔ ادائیگی کا توازن برقرار نہ رہنے کی وجہ سے روپے پر دباو بڑھاتا چلا گیا۔ دنیا اسکا مطلب لیتی ہے کہ ہم اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکیں گے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی کیا ہے۔ ایکسچینج ریٹ جیسے جیسے بڑھنا شروع ہوا تو کرنٹ اکاونٹ میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اب یہ خسارہ ایک ارب ڈالر تک آگیا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ذخائر میں مسلسل کمی اب رک گئی ہے۔
اب ذخائر میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہاہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاشی پروگرام کو سپورٹ کرتا ہے۔ وہ اس وقت پیسہ دیتی ہے جب اسے یقین ہو کہ آپ قرض واپس کردیں گے۔ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے جو کام اسٹیٹ بینک نے کرنا تھا کیا ہے۔ بزنس ایکٹیوٹی بڑھے گی تو ملکی معاشی نمو بھی بہتر ہوگی۔آپ ہم بھروسہ رکھیں ملکی معاشی حالات میں بہتری آرہی ہے۔تاجروں اور صنعتکاروں کو مزید اعتماد کرنا ہوگا تو مزید استحکام آجائے گا۔انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمت بڑھنے کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بیرونی خطرات کے لیے اسٹیٹ بینک ہر وقت تیار ہے۔ جو سیکٹر ٹیکس نہیں دیتا اس کو ٹیکس دینا ہوگا بہت سے سیکٹر ہیں جو ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے، ایس ایم ای فنانس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آئیں۔ کاروبار بینکنگ سیکٹر سے زیادہ کریں کیش سے کاروبار کم کریں۔ کیش سے کاروبار کرنے سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔ کیش سے کاروبار کرنے سے کماتے ہیں لیکن ملک کو کچھ نہیں دیتے۔ جو ٹیکس نہیں دیتا اسے ملک کی بہتری کے لیے ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے لانگ ٹرم پالیسز بنائی ہیں۔ جنگی صورتحال کے حوالے سے بھی پالیسی مرتب کی گئیں ہیں۔صدر ایف پی سی سی آئی انجینئر دارو خان اچکزئی نے کہا کہ ڈاکٹرباقر کی سربراہی میں اسٹیٹ بینک نے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال اب بہتری کی طرف بڑھ رہی یے۔بیرونی قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے جس سے آئندہ سالوں میں مزید مشکلات ہوں گی۔آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے دیگر آپشنز پرغور کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔لوکل سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہیے تھے۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں شرح سود بہت کم ہے مگر پاکستان میں شرح سود بہت زیادہ ہے۔بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے سبب صنعتی اور گھریلو معاملات میں مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 35سے 40فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ملک کابرآمدی شعبہ شدید مشکلات سے دوچار ہے اس صورتحال میں ایکسپورٹ بڑھاناممکن نہیں۔اسٹیٹ بینک تجارت کو بڑھانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔میری درخواست ہے کہ اسٹیٹ بینک چمن میں اپنا ایک آفس بنائے۔ہم اسٹیٹ بینک کے تمام اقدمات اور کاوشوں میں ان کے بھرپور ساتھ دیں گے۔